شامِ فراق

شامِ فراق آئی بلبل چلے چمن سے

رشتہ ہوا ہے قائم ان کا نئے گگن سے

داغ فراق دے کر گلشن سے جارہے ہیں

غنچے چمن کے سارے آنسوں بہا رہے ہیں

شبنم کے تھے جو قطرے سارے لہو ہوئے ہیں

ہر شاخ غم زدہ ہے اور پھول رو رہے ہیں

اور باغباں یہ غم میں بلبل سے بولتا ہے

الفاظ کے وہ دفتر غم ناک کھولتا ہے

جاتو رہے ہو لیکن عہدِ وفا نبھانا

جس شاخ پر بھی رہنا میرے ہی گیت گانا

شاہین بن کے تم کو ہے آسماں پہ چھانا

علم و ادب کا محور دنیا کو تم بنانا

خوشبو میرے چمن کی لیکن نہ بھول جانا

گھر گھر چراغ تم کو حکمت کا ہے جلانا

بلبل یہ باغباں سے کہنے لگے ادب سے

رشتہ ہمارا قائم تم سے ہوا ہے جب سے

ہم نے شعور پایا باغِ وفا کے اندر

دیکھے ہیں کیسے کیسے ہم نے حسین منظر

بلبل اسی چمن کے دنیا پہ چھا رہے ہیں

بنجر زمیں پہ تازہ گلشن بسا رہے ہیں

ذرّات سے چمن کے اک کہکشاں بنی ہے

جس کی زمانے بھر میں بے مثل روشنی ہے

فیض و کرم کا اس کے قائل ہوا زمانہ

سنساراب لکھے گا تیرا نیا فسانہ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here