میں تنہا کھڑا یہ سوچ رہا تھا نہ جانے کیسی قطار ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اور مسلسل طولانی ہوتی جاتی ہے۔ابھی میں اپنے خیالات میں ہی گم تھا کہ ایک اجنبی نے مجھے اچانک دھکا دیا اور قطار میں جا کھڑا ہوا۔میں نے بھی دھیرے دھیرے قطار کی طرف قدم بڑھائے۔سورج اپنے پورے شباب پر تھا اور اپنی کرنوں کے نشتر قطار میں کھڑے لوگوں کے جسموں میں پیوست کرکے ان کی روح میں اترنا چاہتا تھا۔میں نے دیکھا کہ میرے آگے کھڑا ہوا شخص پسینے میں شرابور ہوچکا تھا۔یکایک وہ چکّر کھا کر زمین پر گر پڑا جیسے اسے کسی نے بلندی سے نیچے گرا دیا ہو۔مجھے اس کے مرجھائے ہوئے چہرے میں کسی مانوس شخص کی تصویر نظر آنے لگی اور میری آنکھوں کے سامنے ایک ایسا منظر گھومنے لگاجو مجھے ماضی کے سیلاب میں بہا کر غرق کرنے پر آمادہ تھا اور جس سے میں راہِ فراف اختیار کرنے کے لئے ہی قطار میں شامل ہوا تھا۔ مجھے اب لگنے لگا تھا کہ وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ بہ ذاتِ خود میں ہی ہوں جو ایک عرصے سے قطار کی تلاش میں تھا۔پھر ایک چکاچوندھ روشنی نے اچانک نمودار ہوکر مجھے اپنے طلسم میں گرفتار کرلیا اورایسا معلوم ہوا کہ جیسے میں کسی دوسری دنیا کی تلاش میں سفر پر نکل پڑا ہوں ۔میں نے دیکھا نہ جانے کتنے لوگ اس جھلستی ہوئی دھوپ میں تاب نہ لاکر سائے کی توقع میں میرے پیچھے قطار میں آ کھڑے ہو ئے تھے۔