اقبال: ایک منفرد شاعر

اردو ادب کی تاریخ میں اقبال کے امتیازات متعدد ہیں۔طرہ یہ کہ ہر امتیاز انتہائی متاثر کن ہے اور یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ اس میں عظیم ترکون ہے ۔ اولاً ان کو انگریزی، فارسی پر بھی عبور تھا۔ مزید برآں ، اعلی تعلیمی اسناد اور تخصص میں ان کی انفرادیت نمایاں ہے۔ وہ بیک وقت شاعر بھی ہیں اور فلسفی بھی، اور فلسفے پر ان کی دسترس بے مثال ہے۔ ان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اپنے کلام میں منظم اور منضبط انداز میں انھوں نے اسلامی اور قرآنی تصور جہاں اور حیطہ اقدار کو فنی حسن اور شعری کمال کے ساتھ پیش کیا ہے۔اقبال کا ایک معروف پر اثر شعر ہے

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ

سرمہ ہے میر آنکھ کا خاکِ مدینہ ونجف

یہ خاکِ مدینہ و نجف کی برکت ہی تھی کہ اقبال کی نظر جلوۂ دانش فرنگ سے خیرہ نہیں ہوئی، ورنہ اقبال نے جس دور میں ہوش سنبھالا وہ مغربی صنعتی انقلاب، ڈارون کے نظریہ ارتقاء، مارکس کے اشترا کی افکار، ملحدانہ تصور حیات، فرائڈ کے تحلیل نفسی کے تجربات اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی بالا دستی سے عبارت تھا۔ مغربی استعماریت کا اقبال اس وقت نصف النہار پر تھا اور “پیروئ مغرب”مسلمانوں کے لئے اسم اعظم کا حکم رکھتی تھی اور ان کی مادی اور دینوی کامیابی کے لئے شاہ کلید تھی۔ ہر چند کہ اپنی تعلیم کے حصول کے لئے عرصے تک اقبال جرمنی اور انگلستان میں مقیم بھی رہے لیکن مغرب کے طلسم سے مسحور اور مرعوب نہیں ہوئے ۔ مغرب سے اپنے تمام تر علمی اور فکری اکتسابات کے باوصف وہ ہمیشہ اسلام اور قرآن کے حیات بخش اور جاودانی پیغام کے نہ صرف قائل رہے بلکہ اس کے حکیمانہ مبلغ اور مناد بھی۔ ان کی فکر اسلامی تصور حیات میں جز ولا نیفک کے طور پر اس طرح پیوست ہے کہ اسلامی افکار اور اقدار سے واقفیت کے بغیر ان کے کلام کی تفہیم اور تحسین ممکن نہیں ۔

اقبال کا ایک بڑا امتیاز ان کی غیر معمولی مقبولیت ہے۔ اپنی حیات میں بھی اور اپنی وفات کے آج ۸۰ (اسّی ) سال بعد بھی ان کے فکر وفن کی پذیرائی ہنوز قائم ہے۔ صرف اردو میں اقبال شناسی کو محیط کتابوں اور مقالات کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ ان سے منسوب متعدد مؤقر علمی اداروں میں ان کے فکر وفن کے نئے نئے گوشے با قاعدگی کے ساتھ منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ ان کی بے نظیر مقبولیت کا ایک امتیازی پہلو دیار مغرب میں ان کی ادبی، فنی اور فکری عظمت کا اعتراف ہے۔اس اجمال کی کچھ تفصیل یہاں پیش ہے۔ عالم مغرب میں اردو کے کسی ادیب کو اس سطح پر توجہ حاصل نہیں ہوئی ۔

اسرار خودی کی اشاعت کے محض ۵ سال بعد ہی ممتاز مستشرق، رینالڈ۔ایلن۔نکلسن (۱۸۶۸ء- ۱۹۴۵ء) نے اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع کیا۔اس ترجمے نے انگریزی ادب اور تنقید کی مقتدر شخصیات کو متاثر کیا اور چند ماہ ہی میں اس ترجمے کے حوالے سے اقبال کے فکر وفن پر تنقیدی مقالات کی اشاعت کا جو سلسلہ شروع ہواوہ ہنوز دراز ہے۔ نامور انگریزی ناول نگار، ای۔ایم۔فارسٹرنے تین مقالات اور پھر ڈکنسن اور ہربرٹ ریڈ نے اسرار خودی کے فنی محاسن اور جہاں افکار پر اپنی تنقیدی آراء پیش کیں جن کے اردو ترجمے مؤقر علمی مجلے ، معارف دار المصنفین ، اعظم گڑھ ۲۱-۱۹۲۰ء کی زینت بنے۔ ایک اور مشہور برطانوی مستشرق، اے۔جے۔آر بری نے اقبال کے جاوید نامہ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے جبکہ وی۔جی۔کیرنن اور ڈیوڈ میتھیوزنے دیگر نظموں اور غزلوں کو انگریزی قالب میں پیش کیا ہے۔ اس سے اہم تر نکتہ یہ ہے کہ اب تک انگریزی میں سیکڑوں مقالات اور کتابوں نے اقبال شناسی کے نئے ابواب واکئے ہیں۔

حال میں شائع اقبال پر ایک جامع وضاحتی کتابیات سے یہ علم ہوتا ہے کہ انگریزی اور دیگر یوروپی زبانوں مثلا فرانسیسی ، جرمن، ولندیزی، روسی، چیک، اسپینی اور اطالوی میں اقبال کے بارے میں تقریباً ڈھائی ہزار تصانیف موجود ہیں اوراس خیرہ کن تعداد میں اضافہ روز افزوں ہے۔ یہ نکتہ بھی کچھ کم امتیازی نہیں کہ اپنے اپنے انداز میں اب تک چار سو سے زائد مغربی فضلاء نے اقبال کی عبقریت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جر من عالمه، این۔میری۔شِمیل نے جرمن میں ۴۹ تصانیف، روسی فاضلہ، نتالیہ پریگارنیہ نے ۲۰ تصانیف، جرمن عالم، جے۔میرک نے ۹ تصانیف، ایک اور جرمن نقاد ، جے۔سی۔برگل نے ۵ تصانیف اور فرانسیسی فاضل،لوسی۔کلاڈ۔میتر نے ۵ تصانیف اقبال کی عظمت کو نذر کی ہیں۔ ان مغربی فضلاء نے اقبال کے تصورِ زماں و مکاں، تصورِ جبر و قدر ،تصورِخودی، تصورِ مرد کامل،واقعہ تخلیق، تاریخ ادیانِ عالم، فلسفہء خیر وشر اور شیطان کے کردار وغیرہ کے بابصیرت مطالعے سے اقبال فہمی میں گراں قدر اضافہ کئے ہیں۔

اردو ادب کے طالب علموں کے لئے اہل مغرب کی ان تصانیف کا مطالعہ کئی لحاظ سے نہایت سودمند ہوگا اور مندرجہ ذیل قابل تحقیق امور کے تعین میں مفید ہو گا کہ ایک بالکل ہی مختلف مذہبی،ادبی،ثقافتی اور فکری روایت کے امین اِن فضلاء نے اقبال شناسی کی دشوار راہ کیسے طے کی اور اقبال فہمی کا حق کہاں تک ادا کیا،ان کے تنقیدی زاویے اقبال شناسی میں کس حد تک کارآمد ہیں،ان کے ہاں تعبیر اور تشریح کے اصول اور مناہج کیا ہیں اور وہ کس حد تک اور کیوں اقبال فہمی سے دور رہے۔کیا وہ کلام اقبال میں جاری اور ساری اسلامی تصورِحیات کی شناخت اور تقسیم پر قادر ر ہے اور اردو ادب اور تقید میں انھوں نے کیا اضافے کئے۔

بہر کیف مغربی علماء و فضلاء نے جس وسیع پیمانے اور جس جودت طبع کے ساتھ اقبال کا مطالعہ کیا ہے اس کی نظیر اردو ادب میں نہیں ملتی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here