دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبو ئے وفا آئے گی
اٹھارہویں صدی کے وسط میں سلطنت مغلیہ کا آفتاب ٹمٹما رہا تھااور انگریزی اقتدار کی گھٹائیں دن بدن بڑھتی جارہی تھیں، انگریز ہندوستان میں تاجروں کی حیثیت سےآئے اور عام لوگوں نے انھیں ایک معمولی تاجر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی، انھوں نے اپنوں کی کمزوری اور آپسی نااتفاقی سے فائدہ اٹھاکر اپنی شاطرانہ اور عیّارانہ چالوں کے ذریعہ ہندوستانی قوم کو غلامی کی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کو لوٹنے لگے، لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے،لیکن پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادیٴ وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا، سراج الدولہ اور سلطان ٹیپوں شہید اور دیگر مسلم فرماں روا اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تحریک آزادی کی ابتداء ہوئی۔
پھر بھی یہ تحریک رکی نہیں بلکہ اس نے زور پکڑنا شروع کیا اور اب علماء ہند کفن باندھ کر انگریزوں کو للکار نے لگے مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی ، مولانا اسمٰعیل شہید، مولانا عبد الحئی اور آگے چل کر مولانا قاسم نانوتوی، شیخ الہند، مولانا گنگوہی، حافظ ضامن شہید ، مولانا حسین احمد مدنی ، مفتی کفایت اللہ اور مولانا آزاد جیسےدیگر باہمت علماء لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ، جنھوں نے اپنی تقریروں، تحریروں؛ بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادیٴ وطن کی بنیاد رکھی۔
انھیں علماء کرام کی تحریک پر۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں ہندوستان کے ہر فرقے کے لوگ شامل تھے؛ لیکن یہ جنگ ناکام ہوئی اور ناکامی کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کو چکانی پڑی، تقریباً دولاکھ مسلمان شہید ہوگئے جن میں تقریباًباون ہزارعلماء تھے ان کی جائدادیں لوٹ لی گئیں،اس قدر جانی و مالی نقصان کے باوجود تحریک آزادی کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہا اور بالآخر ہمارا ملک تمام فرقوں ، بالخصوص مسلمانوں اور خاص طور سے علماء کی جُہد ِمسلسل اور پیہم کو شش اور جانی ومالی قربانی کے بعد ۲۶/جنوری ۹۵۰ ۱ ء سے جمہوری ملک قرار دیا گیا اور دستور کو سیکولر دستورکا نام دیا گیا۔
مجاہدین آزادی کے سامنے تحریک آزادی کا مقصد صرف سیاسی آزادی نہیں تھا بلکہ ایسے نظام کا خواب تھا، جس میں اس ملک کے تمام شہریوں کو مذہبی، سماجی اور معاشی آزادی حاصل ہو تاکہ بغیر کسی مذہبی علاقائی اور لسانی تفریق کے جہالت، غربت ، ظلم و تشدد اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بَری سماج وجود میں آسکے اور ہر شہری عزت والی زندگی گذار سکے، غور کیجیے ملک آزاد ہوئے تقریبا ۷۶سال ہوگئے؛ لیکن کیا انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی کیا ہمیں انگریزی کلچر سے آزادی مل سکی؟
بحرحال، ۱۹۴۷ء میں ملک کے لوگوں کے درمیان مل جل کررہنے کا جو سمجھوتہ ہوا تھا، کیا وہ کامیاب ہوتا ہوا نظر آرہا ہے؟کیا سماجی مساوات کی خلیج پاٹ دی گئی ؟کیا ہر مذہب والے کومذہبی آزادی مل سکی؟بد عنوانی ، کرپشن، سرکاری خزانے کی لوٹ اور ملاوٹ، دہشت گردی و فرقہ پرستی جیسی غیر قانونی باتوں سے ملک آزاد ہوسکا؟ ذرا آگے بڑھیے، آزادی کے بعد ایک مخصوص فرقے کے ارد گرد گھیراتنگ کیا جانے لگا، گزشتہ ۵۰/۶۰/سالوں میں ملک کی اقلیت کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا گیا اس کے نتیجے میں جمہوریت پر اعتماد برقرار نہ رہا۔ اس دوران ملک کا اخلاقی زوال اس سطح تک پہنچ گیا کہ ملک کے ہر محکمہ اور ملک کے ہر ادارے میں بے ایمانی، رشوت خوری اور ناجائز طریقے سے دولت سمیٹنے کا طوفان سا آگیا، اب ہر روز ایک نئی بدعنوانی کا پردہ فاش ہورہا ہے ، سیاست ایک نفع بخش پیشہ بن گیا ہے،ملک کی فوج کے کچھ افراد شک کے دائرے میں آگئے، مُحِبِّ وطن کو غدارِ وطن کہا جانے لگا، مسلمانوں کے ساتھ ہر سطح پر اور تمام شعبہ ہائے حیات میں نا انصافی کی گئی، تعلیمی اور اقتصادی طور سے انھیں میں بربادکر دیا گیا ، ۱۹۶۱ء سے فسادات کا سلسلہ چل پڑا ، جانی و مالی دونوں اعتبار سے انھیں نقصان پہنچایا گیا،دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، فرضی ان کاوٴنٹر کا کھیل کھیلا گیا، ہر میدان میں ایک مخصوص فرقے کو پیچھے رکھنے کی سازشیں کی گئیں ، کیا مجاہدین آزادی نے ایسی ہی جمہوریت کا خواب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا؟
دوسری طرف جاں باز اور ایثار شیوہ علماء اور مجاہدینِ آزادی کی خدمات اور ان کی سر فروشی کے آثار ونشانات تاریخ کے اوراق سے مٹانے کی انتھک کوشش جاری ہیں اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا کوئی خاص رول نہیں ہے اور جشن آزادی اور جشن جمہوریہ کے موقع پر صرف گاندھی ، نہر و، سبھاش چندربوس، بھگت سنگھ وغیرہ کا نام پوری طاقت سے لیا جاتاہے، او ر ہماری نئی نسل ان کےپروپگنڈے میں پھنس بھی رہی ہے، آج ہماری نسل اپنے بزرگوں اور آباء و اجداد کی قربانیوں کی تاریخ سے ناواقف ہے، انھیں علماء کی جفاکشی ، علماء کی سرفروشی کا علم نہیں، انھیں سراج الدولہ، شیر میسور ٹیپوسلطان کی وطن پرستی سے واقفیت نہیں، آج نئی نسل چاہے وہ مسلمان ہوں یا برادران وطن سب یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۶جنوری ہماری قومی تاریخ میں مسرت کے دنوں میں سے ایک دن ہے، اس میں شک نہیں کہ واقعی یہ دن فرحت و شادمانی کے دن ہیں، لیکن ہم نئی نسل پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے اکابر و اسلاف کی قربانیوں کی تاریخ پڑھیں، ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیں، ان کی صفات و خصوصیات اپنے اندر جذب کرکے اس کے نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ پیدا کریں ۔
یہ ملک سب کی محنتوں اور کوششوں سے آزاد ہوا ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس ملک کی جمہوریت کو باقی رکھیں اور اس پیارے ملک میں نفرت پھیلا نے والوں کی چال کو کامیاب نہ ہونے دیں۔
سبھی کاخون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے