غالب کے کبھی میر کے دیوان سے چہرے
مشکل سے سمجھ آتے ہیں آسان سے چہرے
سینے میں دھڑکتے ہوئے ایمان سے چہرے
اب دیکھ کے لگتا ہے تھے انجان سے چہرے
پرچھائیوں کی قید میں دم توڑ رہے ہیں
ساحر کی کسی نظم کے عنوان سے چہرے
دل شہر تمنا ہے، محافظ ہیں نگاہیں
رہتے ہیں یہاں بے سر و سامان سے چہرے
دھوکا ہے نگاہوں کا، یہاں دام قفس میں
آزاد نظر آتے ہیں زندان سے چہرے
حالات سے لڑنے کا ہنر سیکھ رہے ہیں
مسکان لپیٹے ہوئے سنسان سے چہرے
ہر سمت اندھیرا ہے، تماشائے کہن ہے
مایوس ہیں انسان سے، انسان سے چہرے
کیوں ہاتھ میں ارجن کے، دھنش کانپ رہا ہے؟
لشکر میں ہیں دشمن کے، دل و جان سے چہرے