سرشتِ حسن کا جلوہ دکھائے دیتا ہے
بھنور کے بیچ بچھڑنے کی رائے دیتا ہےتری ہنسی میں وہ سحرِ غنائے مطرب ہے
مری فغاں کو جو نغمہ بنائے دیتا ہےکمالِ معرفتِ عشق کی بلندی پر
یہ کون پردۂ غیبت اٹھائے دیتا ہےاسی نے حسنِ سماعت تمہیں دیا ہوگا
وہی جو ہم کو سخنور بنائے دیتا ہےیہ کیسا شورِ خموشی ہے اندروں میرے
جو میرے کان کے پردے اڑائے دیتا ہےوہ میری روح کی تکمیل کر چکا ہے تو پھر
بدن یہ کس کو صدائیں لگائے دیتا ہےتجھے خبر ہے انہیں کے ہیں کوثر و تسنیم
تو جن کی پیاس پہ پہرے بٹھائے دیتا ہےقسیمِ عشق ہے! الفت لٹا لٹا کے سفر
وجودِ نطفۂ شر کو مٹائے دیتا ہے