جب کبھی ہم زبان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زبان کے سلسلے میں عوام کا خیال یہ ہے کہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے،جو کہ ایک زاویہ سے درست ہے اور دوسرے زاویہ سے غلط۔ در اصل دنیا میں کسی شے کا وجود بھی خدا کے بغیر ممکن نہیں،اس اعتبار سے زبان بھی خدا کی دین ہے لیکن اس کی ایجاد اور دریافت کا سہرا حضرت انسان کے سر جاتا ہے۔ ماہرین لسانیات نے اس پر طویل بحثیں کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ زبان انسان نے خود بنائی ہے۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات کا اظہار مختلف آوازوں سے کرتا ہے اور یہی آوازیں الفاظ بنتی ہیں اور یہ الفاظ جملوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
الغرض آدمی جو کچھ بولتا ہے وہی زبان ہو جاتی ہے۔ اس لئے زبان کا تعلق آدمی کے جذبات،تاثرات،مذہب اور قومیت سے ہوتا ہے۔ اگر خدا نے انسان کو بولنے کی طاقت دی ہے اور وہ بولنے پر قدرت رکھتا ہے تو ضرور کچھ نہ کچھ بولتا ہے۔ امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا جاہل،بوڑھا ہو یا بچہ،آدمی ہو یا عورت یہ سب جب کلام کرتے ہیں تو ان کے منہ سے کئی طرح کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں جن کا مطلب ہم ہماری تہذیبی روایات اور سماجی ماحول سے حاصل کر کے سمجھتے ہیں۔ مختصر طور پر یوں سمجھ لینا چاہئے کہ مختلف آوازیں مل کر الفاظ بناتی ہیں اور پھر کئی الفاظ مل کر جملے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ جملے جس ماحول اور واقعہ کے سلسلے میں بولے جاتے ہیں،اسی اعتبار سے اپنے معانی بتاتے ہیں،اور اس سارے تسلسل کو ہم “زبان” کا نام دیتے ہیں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر زبان میں اس کے بولنے والوں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تبدیلیاں بھی ضرور آتی ہیں۔ کیونکہ ہر شخص کا اندازِ گفتگو دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔
زبان میں جو تبدیلیاں آتی ہیں ان کا عام سبب ماحول اور سماجی حالات ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو مختلف زبانیں بولنے والے تجارت یا کسی دوسری وجہ سے دو زبانوں کو ملا کر بغرض ضرورت اپنا کام نکالنے کو ایک تیسری زبان بنا لیتے ہیں اور بسا اوقات یہی بولی دو قوموں کے بیچ پل بڑھ کر اس درجہ پر پہنچ جاتی ہے کہ اس میں شعر و ادب، باقاعدہ تعلیم اور انتظامی امور انجام دئے جانے لگتے ہیں۔ اس طرح زبان مختلف مراحل طے کرتی ہوئی ایک بڑی قومی یا ملکی زبان بن جاتی ہے۔
یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ایک شے کے لئے دنیا میں سینکڑوں الفاظ موجود ہیں،جبکہ حضرت آدم کی پیدائش کے وقت یقینا ایک شے کا ایک ہی نام رہا ہوگا۔ اس کا جواب یہ سمجھ آتا ہے کہ انسان دنیا میں جہاں جہاں رہا اس نے وہاں کے ماحول اور آب و ہوا کی مناسبت سے اپنے سامنے والی چیزوں کے نام تجویز کر لئے اور وہ اسی طرح آگے رائج ہو گئے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ انسانوں کی آبادی کی کثرت جب بڑھی تو انسان الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہو کر رہنے لگے۔ ابتدا میں کسی ایک قوم یا ایک گروہ کے لوگوں نے جس شے کے لئے ایک لفظ کا استعمال کیا،دوسرے گروہ کے لوگوں نے اسے دوسرے نام سے پکارا۔ یہ اس لئے ہوا کہ انہوں نے جو نام بھی تجویز کئے ان پر ان کے تمدن ،ماحول اور آب و ہوا کے اثرات شامل تھے۔ اس کے علاوہ اپنی لیاقت سے اور مختلف الفاظ بھی وضع کئے۔ لیکن جب انسانی تہذیب نے ترقی کی طرف قدم بڑھائے یعنی قبیلے کی زندگی ختم ہونا شروع ہوئی اور دو یا تین گروہوں اور قبیلوں نے مل کر ایک نئی تہذیب کا آغاز کیا تو ان کی بولیوں سے ایک ملی جلی زبان وجود میں آ گئی اور ہر ایک چیز کے لئے ایک سے زیادہ الفاظ مستعمل ہو گئے۔ لیکن جو قبیلہ یا گروہ اس وقت طاقتور تھا اس کی زبان کو بھی دوسرے گروہوں کی بولیوں پر فوقیت حاصل ہو گئی اور اس کے الفاظ نے دوسرے گروہوں اور قبیلوں کے الفاظ کو خارج کر دیا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ الفاظ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئے ہوں۔ بس ان کا چلن کم ہو گیا۔ اس طرح تمام الفاظ نے مل کر انسانی الفاظ کے خزانے کو مالامال کر دیا اور اس کے پاس ایک ایک چیز کے لئے کئی کئی الفاظ ہو گئے جس سے انسانیت کو اظہار خیال میں بہت مدد حاصل ہوئی۔ خاص طور پر شاعری کا رواج عام ہوا تو شعراء نے اپنی لیاقت کی بنا پر نئے نئے لفظ استعمال کر کے ایسے الفاظ کو بھی زندہ کر دیا جو اب تک صرف لغت کی زینت بنے ہوئے تھے۔
خلاصہ یہ کہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی کی تاریخ کے ایک بہت بڑے دور پر زبان کی ابتدائی تاریخ پھیلی پڑی ہے کہ کس طرح انسان نے الفاظ بنائے اور پھر انہیں جوڑ کر بولنا شروع کیا تاکہ وہ اپنا مقصد دوسروں پر ظاہر کر سکے۔