زندگی یہ فانی ہے
زندگی کہانی ہے
اک کہانی ایسی کہ جس میں خواب کے مانند ٹوٹتے بکھرتے ہیں کچھ حسین سے چہرے
جن کو یہ نہیں معلوم روشنی کی قیمت کیا، کیا ہیں شب کی تاریکی
جن کو یہ نہیں معلوم صبح جیسے ہوتی ہے
کیسے ان کے کمرے میں روشنی جھروکھے سے چپکے چپکے آہستہ فرش پہ اترتی ہے چار سو بکھرتی ہے۔
تا کی ذہن میں ان کے جو سیاہی بیٹھی ہے ان کو وہ مٹا پائے کمرے میں پڑی ہر ایک شے انہیں وہ دکھائے۔
پر مجھے یہ لگتا ہے بات روشنی کو یہ اب تلک نہیں معلوم پلکوں کے دریچوں سے کس طرح وہ داخل ہوں۔
کیونکہ یہ وہ کھڑکی ہے بند ہے جو مدّت سے جس کے کھلنے کا امکاں اب نظر نہیں آتا۔
گرچہ ایسا ہو گا تو جیت کیسے پائے گی روشنی اندھیرے سے۔
زندگی مقابل میں موت کی کھڑی ہے جو جانے کتنی صدیوں سے جنگ ہار جائے گی۔
زندگی نشانی ہے
ایک نشانی ایسی کہ جو ہمیں بتاتی ہے یہ یقین دلاتی ہے دور آسمانوں میں کوئی ایک ایسا ہے جو ہمارا خالق ہے غم کے اور خوشی کے سب لمحے وہ بنا کر کہ ہم کو آزماتا ہے۔
اس کو یہ پتہ ہے کہ زندگی مقابل میں موت کے کھڑی ہے جو جانے کتنی صدیوں سے اس کا ہار نہ طے ہے
ہر کسی کو مرنا ہے۔۔۔۔
پر یقین بھی ہے اس کو روشنی کی لشکر میں جتنے بھی سپاہی ہیں جنگ ہار بھی جائیں پر اندھیروں کے آگے سرنہیں جھکائیں گے
جنگ ہار جائیں گے
سر نہیں جھکائیں گے