وہ شخص راہِ شوق کی منزل نہیں ہوا
دریا تو بن گیا مرا ساحل نہیں ہوا
طوفان آئے لاکھ گریں بجلیاں مگر
یہ دل ترے خیال سے غافل نہیں ہوا
جاتی ہوں اس کی بزم سے مایوس آج بھی
میری طرف وہ آج بھی مائل نہیں ہوا
اک میں کہ بانٹتی رہی اس کے تمام غم
اک وہ کہ میرے غم میں ہی شامل نہیں ہوا
ناکامیوں پہ کرتا رہا ہے ملال دل
لیکن کسی کے نام پہ سائل نہیں ہوا
ہم ڈھونڈتے ہی رہ گئے اس کا حریف پر
کوئی بھی اس کا مدِ مقابل نہیں ہوا
میری دعا نہ میرا مقدر بدل سکی
مجھ کو جو چاہیے تھا وہ حاصل نہیں ہوا
وہ جانتا تھا موت تو آسان چیز ہے
ظالم رہا وہ اس لیے قاتل نہیں ہوا
سوچا تھا اس سے خوب کروں گی شکائتیں
سوچا پھر اس قدر کہ میرادل نہیں ہوا
وہ شخص ہی دوا ہے سحر تیرے مرض کی
وہ شخص جو رسائی کے قابل نہیں ہو