اس کو خلوت کا میری پاس نہیں

Image Source: Grief Healing Blog

اس کو خلوت کا میری پاس نہیں
کیسے کہہ دوں جی اداس نہیں

نا شناسا کوئی اگر ہو بھی
میرے نالوں سے نا شناس نہیں

ایک میں ہوں کہ اس کے گرد و نواح
ایک وہ ہے کہ آس پاس نہیں

کیا ہوا غم کے پاسداروں کو
کس لیے محوِ حزن و یاس نہیں

چاہتا ہوں جسے قریب اپنے
اک وہی شخص میرے پاس نہیں

بر سرِ بزم ہے وہ جلوہ نما
حیف! اس کو حیا کا پاس نہیں

خون کو خون جو نہیں کہتے
ایسے لوگوں سے کوئی آس نہیں

گالیاں بھی نہیں قبول انہیں
اور عزت بھی ان کو راس نہیں

ساقیا جام اسی کو دیتا ہے
قطرہ بھر کی بھی جس کو پیاس نہیں

ناف پیالے سے اب پلا بھی دے
اب تو ہاتھوں میں میرے کاس نہیں

کون ہم سا ملول ہے جگ میں؟
جز ملال اپنی کچھ اساس نہیں

بعد صائنؔ کے اتنا یاد رہے
کوئی عاشق کا غم شناس نہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here