…. اس کی نظر صرف میرے جسم پر تھی جس کو میں اپنی روح سوپنا چاہتی تھی. اس کی نگاہیں بار بار میرے ہیولے پر آکر روک جاتی. چاہے نہ چاہے میں بھی اسے گھورتی رہی اس کی مژگاں کی جنبش میں چبھن نظر آرہی تھی. ایک ایسی چبھن جس کو پہلے کبھی میں نے محسوس نہیں کیا تھا. معطر پلکیں ایک عجیب سا ہیجان پیدا کررہی تھی. میز پر رکھی گلاس کو چمچ کی بھینی صدا نے دونوں کو ہوش سنبھالنے پر مجبور کردیا.
نہیں جمیلہ دیکھو تم برائے مہربانی غلط تصورات اپنے ذھن میں داخل نہ ہونے دینا۔
کامل. میں نے تم سے پہلے بھی کئی بار یاد دہانی کراچکی تھی کہ میرے والدین عنقریب کہیں نہ کہیں میرا رشتہ طے کرنے والے ہیں.
نہیں جمیلہ پلیز ایسا مت کرنا.
ہان تو میں کیا کروں وہ میرے والدین ہیں وہ جو کچھ کریں گے میری بھلائی اور بہتری کے لئے کریں گے.
کیا ہم اچھے دوست بن کر نہیں رہ سکتے؟؟؟؟
بالکل تمہارا کہنا درست ہے کامل اس دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں. اور دوست ہی تو ایک دوسرے دوست کا غمگسار ہوتا ہے. انسان چاہے جتنا بھی کوشش کرے اسے کسی کی مدد لینی ہی پڑتی ہے چاہے وہ میاں بیوی ہوں. دوست احباب ہوں. والدین ہون. رشتہ دار ہوں. پڑوسی ہوں. قرابت دار ہوں. محض کی ہر کس وناکس اس سے بری نہیں ہے.
کامل جمیلہ کی ساری باتیں عاجزی انکساری کے ساتھ سن رہا تھا. کہ اسی درمیان میں کھانے کا آڈر لینے کے لئے ایک آدمی برآمد ہوا. ادبی انداز میں سلام کیا ۔پہلے تو وہ دونوں کی گفتگو کو سمجھنے کی کوشش کیا مگر ناکامی ہاتھ لگی. پھر عاجزی سے کامل کی نگاہوں کو پرکھتے ہوئےمخاطب ہوا.
ساب کھانے میں کیا لین گے. اس کے بعد سر کو خم کیے سیدھا کھڑا ہوگیا نگاہیں نیچی. ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوے ماحول کو سمجھنے لگا.
کامل نے ٹیبل پر رکھی فہرست کو سرسری نظر سے ایک بار دیکھا. اس درمیان جمیلہ اپنے پرس سے موبائیل نکال کر میسیج چیک کنے لگی. کامل کن انکھیوں سے اسے گھورنے لگا تھا. اچانک جمیلہ کی نگاہ اوپر کو اٹھی تو کامل اپنے آپ کو درست کرتے گلے کو صاف کیا اور بولا
ویسے کھانے کا تو اب کوی ارادہ نہیں جس سے میرا دل سکون حاصل کرتا ہے وہ تو میرے سامنے ہے اب ایسی حالت میں کھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.
آپ ایک کام کرو دو کپ چائے لادو بس.
اوکے ساب ابھی لاتا ہوں.
اتنا کہہ کر ویٹر اپنی سبک روی سے وہاں سے رخصت ہوگیا اور آن کی آن میں دو کپ چاے حاضر کردیا.
کامل نے کپ کو جمیلہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا.
چائے پیو یہاں کی چائے بہت مزیدار ہوتی ہے. مگر جمیلہ کی آنکھیں کامل کے بات کرنے کے انداز کو سمجھ رہی تھی کی کتنی شاطر دماغی سے بات کو دوسرا رخ دیا جارہا ہے. گویا اس کے لیے یہ ہماری زندگی کی کشمکش کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے. شاید ہر مرد اس دنیا میں ایسے ہی ہوتے ہیں. (جمیلہ دل ہی دل میں بڑ بڑائی)
چائے کیسی ہے.؟؟؟
جی بہت اچھی ہے واقعی بہت مزیدار ہے جمیلہ نے جلدی سے جواب دیا.
اس لیے تو میں نے تم سے بات کرنے کے لیے یہاں پر بلایا تھا تاکی ہم خوب اطمینان سے ڈھیروں باتیں کریں گے اور چائے کا بھی مزہ لیں گے.
پتہ ہے جمیلہ یہاں کی چائے پورے ملک میں مشہور ہے. جو کوی بھی لکھنئو آتا ہے یہان کی چائے ضرور پیتا ہے.
مگر جمیلہ اسے جو سمجھانے کی کوشش کررہی ہے وہ اس سے نظر انداز کرنے کی بھرپور کوشش میں ہے وہ اپنی زندگی کی مشکلات سے باخبر کرنا چاہتی ہے،اس کے دل میں عجیب و غریب خیالات ابھرنے لگے. کہ شاید اس نے مجھے وقت گزاری کا زریعہ سمجھ رہا ہے،ادھر میری زندگی کا فیصلہ کیا جارہا ہے اور اسے میری زندگی کی کوی فکر نہیں.
چائے ختم کرنے کے بعد جمیلہ نے کامل سے رخصتی طلب کی. مجھے اب چلنا چاہیے امی گھر پر انتظار کررہی ہونگی.
ارے جمیلہ روکو تو سہی جانے کی اب ایسی بھی کیا جلدی ہے. میں تم کو گھر تک چھوڑ دونگا.
نہیں اب ایسی مہربانی کی ضرورت نہیں ہے.
کامل اور جمیلہ ایک کمپنی میں دو سال سے کام کررہے تھے ہائے ھلو سے دوستی کی ابتداء تو گی تھی سب کچھ اچھا سکون سے چل رہا تھا کیو نکہ جمیلہ کامل پر حد سے زیادہ اعتماد کرتی تھی شاید اس لیے کی وہ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا کر قبول کر لے گا.
مگر کامل کی لاابالی حرکت سے جمیلہ بھی پریشان ہو تی تھی کمپنی میں ہر کسی سے خلوص سے ملنا گپ شپ کرنا ان کے ساتھ ویکینڈ پر پارٹی کرنا یہ اس کی زندگی میں شامل حال رہی.
کامل تم کتنے اچھے ہو پتہ ہے ہماری دوستی کو اب چار سال ہو گیے ہیں. کامل میں تمہارے ساتھ اپنی پوری زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں ہم اب ایک ہوجائیں گے. ہمارے خوب سارے بچے ہونگےتب ہم ان سب کو لے کر ویکنڈ پر گومتی نگر ریور فرنٹ اور بیگم حضرت محل پارک کی سیر کریں گے.
کامل ہماری زندگی کتنی خوش گوار ہوگی نہ بس اب جلدی اپنے والدین کو میرے گھر بھیج دو. ٹھیک ہے جمیلہ تم جیسا کہوگی اب تو ویسا ہی ہوگا.
جمیلہ کل کا دن میرے لیے بہت خاص ہے.
وہ. کیا ہے بتاو نہ پلیز میری جان. ؟؟؟
بتاوں گا یار تم اتنی اتاولی کیو ہورہی ہو. ؟؟؟؟
کل میری زندگی کا خواب پورا ہوجائے گا .جمیلہ تم کو پتہ ہے میں اس دن کا انتظار اپنے بچپن سے کرتا آیا ہوں ۔وہ کون سا خواب ہے کیا میں بھی جان سکتی ہون؟؟؟
ہاں کیو ں نہیں پر ابھی نہیں.
لیکن کیوں؟؟؟
میں نے آج تک تم سے کوئی بات نہیں چھپایا ہے کامل..
اورتمہاری زندگی کا اتنا بڑا خواب اب پورا ہونے جارہا ہے اورتم ہو کی مجھے بتانے سے گریز کررہے ہو.
بتادوں گا یار،
کامل کے اس رویہ سے جمیلہ کی پریشانی بڑھنے لگی تھی.
کامل نے اسکی آنکھوں کے سامنے ہاتھ کے اشارے سے سات کے ہیولے بناتے ہوئے کہا تم کو کل صبح فون پر بتاوں گا جان. اچھا ٹھیک ہے اب ہم سب کو گھر چلنا چاہیئے ورنہ بہت دیر ہوگی تو گھر پر ڈانٹ سنی پڑے گی.
جمیلہ نے خدا-حافظ کہ کر وہاں سے رخصت ہوگی جاتے ہوئے کہا کہ مجھے فون کرکے بتادینا. گومتی ندی کی اٹھتی لہروں کی ٹرپ جو اپنے ساحل سے بار بار آکر ٹکراتی جن کی آوازیں تو آتی ہیں مگر اس کی شدت اور تڑپ کا آحساس کسی کو نظر نہیں آتا تھا. ان لہروں کو دیکھ کر کو اپنے جزبات ابھرنے لگے اپنی زندگی کا موازنہ کرنے لگی تھی جمیلہ بھی اس لہر کی طرح تیز-رفتار کے ساتھ کامل جیسے ساحل میں ضم ہونا چاہتی تھی. لہر کی ایک ایک حرکت کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتی تھی. مگر پھر لہریں اپنی نامرادی کے ساتھ واپس لوٹ جاتی تھیں.
نصف شب کے وقت جمیلہ گھر تو پہونچی مگر اسے چین میسر نہ ہوسکا ۔بے چینی کے عالم میں جیسے تیسے رات گزر گئی ۔صبح نمودار ہوئی آنکھوں میں بے قراری حالات کی نارسائی پھر سے جاگ اٹھی. طبیعت میں کسل مندی کل کی ملاقات نے پیدا کررکھی تھی ۔بےچینی کے عالم میں موبائیل دست میں لیا اور نیم باز آنکھوں کو شہادت کی انگلی سے مسلتے ہوئے غور سے دیکھا تو دس مس کال پڑی ہیں ۔
جمیلہ نے جلدی سے اپنے ہواس درست کیے دوبارہ کال کیا.
ھلو اسلام علیکم
جی ھلو کون ؟؟؟
کیسے مزاج ہیں ؟؟؟
اللہ کا شکر ہے. ویسے آپ کون ہو؟؟؟
جی میں جمیلہ بول رہی ہوں .
کون جمیلہ بھائی ہمارے رشتے داروں میں تو کوئی جمیلہ نام کی لڑکی نہیں تھی.
آپ کامل کی آمی جان بول رہی ہیں. ؟؟؟
میں کامل کی دوست جمیلہ ہوں ۔
اچھا جی تو آپ کامل کی دوست ہیں. کہان سے تعلق رکھتی ہیں آپ. ؟؟؟
جی ہمارا تعلق گولہ گنج نوابوں کے شہر لکھنو سے ہے.
۔اچھی بات ہے.
لیکن کامل تو آج صبح کی فلایٹ سے لندن چلا گیا ہے ملازمت کے سلسلے میں.
اتنا سننا تھا کہ آسمان پر ایک بجلی کڑکی اور سیدھا جمیلہ کے دل پر گری مگر اسکی کسی کو خبر نہیں ہوی.
جمیلہ نے جلدی سے فون خدا-حافظ کہ کر رکھ دیا.
کالی گھٹاوں کے چنار پھر سے صدائیں بلند کر نےلگے سر سراہٹ کی آواز پھر سے گوش کو چیرتی ہوی دل کے پار نکل رہی تھی بارش کی تیز بوچھار آنکھوں میں آنسو وںکے مانند جاری ہوگیے.
فون رکھنے کے بعد جمیلہ دیوار سے لگ کر اکڑوں اکڑوں بیٹھ گئی۔ اپنے دونوںتخنون پر اپنی تھوڑی رکھ کر دونوں ہاتھو سے اپنے پاؤں کو دبانے لگی. دل کی ڈھڑکن کو قابو میں رکھنے کے لئے سعی لا حاصل کرنے لگی. آنکھوں میں بہتی دریا کے مانند آنسو جاری تھے. اور یہ آنسو رخسار کی سیر کرتے ہوئے جمیلہ کے دامن کو تر بتر کررہے تھے. اس نامساعد حالات کا ذمداری جمیلہ نے خود کو تسلیم کرلیا.
دن چڑھنے لگا تھا سور ج کی تمازت بھری شعائیں کھڑکیوں کے تنگ راستے سے داخل ہوکر کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کررہی تھیں. گھڑی نےدس بجنے کا الارم دیا جمیلہ جلدی سے اٹھی اور غسل خانے کی طرف جانے لگی کہ اچانک آنگن میں جاتے ہوئے راستے میں پیر پھسل گیا. ماں نے صبح صبح آنگن دھونے کی غرض سے پانی میں سرف ڈال کر گرایا تھا تاکہ بھیگنے سے جلدی صاف ہوجائے گا.
جمیلہ مدہوشی کے عالم میں وہیں پر چٹ سے گر پڑی اور اسکا سر پانی نکالنے والی مشین سے ٹکرا گیا. وہ سر کو پکڑ تے ہوے زمین پر دھڑام سے گری اور اس کا جسم زرد اور برد ہوگیا.