آج لکھنؤ سے علی گڑھ واپسی تھی۔ دو روز قبل ہی ضروری کاموں کی وجہ سے گھر جانا ہوا تھا ۔ واپسی کے لیے اگلے ایک ہفتے تک کسی بھی ٹرین میں ٹکٹ ملنا دشوار تھا، کیوں کہ گذشتہ دنوں غیر مسلموں کے تیوہار تھے اور ان تیوہاروں میں لوگوں کا آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے۔ مجبورا اسپیشل ٹرین کی ویٹنگ لسٹ میں ایک ٹکٹ کا اضافہ ہوا۔
ٹرین کے آنے کا وقت ۹:۳۵ تھا۔ میں دس منٹ قبل ہی اسٹیشن (بادشاہ نگر) آپہنچا تھا۔ صدیق مکرم قمر الزماں ندوی ساتھ تھے۔ یک لخت چائے کی خواہش نے انگڑائی لی، لیکن وقت اتنا کم تھا کہ یہ خواہش کسی طرح بھی پوری نہ ہوسکتی تھی۔ ایک دوسرے کو الفراق، الامان کہتے ہوئے جدا ہوگئے اور میں اسٹیشن کے اندر آگیا۔ میرے ساتھ بیگ، کتابوں سے بھرا ڈبہ اور ایک تھیلا تھا۔ جسم ناتواں کے لیے یہ ایک بار گراں تھا، لیکن کتابوں سے نسبت تعبدی کی بنا پر مجھے اس راہ کی ہر مصیبت آسان معلوم ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔ میں برج پار کرتے ہوئےپلیٹ فارم نمبر ۲ پر آگیا۔ یہاں کچھ دیر انتظار کےبعد ۱۰؍ بجے ٹرین (ویشالی ایکسپریس) آئی۔ اسٹیشن پہ کافی بھیڑ تھی، ٹرین کی صورت حال دیکھی تو میرے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔ پینڈمک میں یہ حالت!!! مانو انسان نہیں، جانور لائے گئے ہوں۔ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ میرے پاس سیکنڈ سیٹ کا ویٹنگ ٹکٹ تھا۔ ہمارے ہندوستان میں جنرل ٹکٹ لے کر سلیپر ڈبے میں سفر کرنے کا رواج عام ہے۔ اب کیا تھا! اس روایت کو برقرار رکھنے کے لیے سیدھا سلیپر کا رخ کیا۔ یہاں بھی وہی صورت حال پائی، بلکہ جنرل (سیکنڈ سیٹ) کی بنسبت یہاں کی حالت زیادہ عجیب تھی۔ خواہی نہ خواہی سامان کے ساتھ آگے بڑھے اور واش روم کے پاس (دو ڈبوں کے درمیان کی جگہ) قدرے جگہ میسر ہوئی۔ دیکھتے ہی لپک پڑے۔ ڈبہ کو ایک کونے کرکے خود ایک دیوار سے لگ گئے۔ آس پاس لوگ پیر پھیلائے زمین پر مست تھے، گویا کوئے یار میں دو گز زمین ہاتھ آگئی ہو۔ کچھ تو کان میں ہیڈ فون لگائے اتنے گم تھے، جیسے مشک و عنبر سے مشام جاں کو معطر کر رہے ہوں۔ ۔۔۔۔ میں جس جگہ کھڑا تھا، وہاں مسلسل ہچکولے پڑ رہے تھے، گاڑی کبھی دائیں بائیں لہراتی اور کبھی اوپر نیچے بل کھاتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ آس پاس کے ماحول سے میری حالت غیر ہونے لگی، فون پہ بھائی سے رابطہ میں تھے، انھوں نے حوصلہ دیا اور ساتھ ہی ایک ٹی ٹی صاحب کا نمبر بھی عنایت کیا۔ دل کو قرار ضرور آیا، لیکن یہ قرار بھی غالب کی شاعری جیسا ہی تھا:
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
آدھے گھنٹے کے فاصلے پر لکھنؤ کے دو اسٹیشن سے ہوتے ہوئے گاڑی کو گزرنا تھا۔ پہلا اسٹیشن بادشاہ نگر اور دوسرا عیش باغ تھا۔ راستے کی دشواریوں کے سبب ہم نے بادشاہ نگر کا رخ کیا تھا۔ اب جو حالت بدلی تو اگلا اسٹیشن عیش باغ آچکا تھا۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہم سامان لے کر گیٹ کی طرف بڑھے، یک لخت گیٹ کی طرف سے ایک ریلا آیا ۔ ’’اس کا بیگ اس کی پسلی‘‘ کی مانند مسافر ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے اور دانستہ و نا دانستہ طور پر پوری تندہی سے ایک دوسرے کو مطلوبہ ڈبہ تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش ناتمام میں مصروف تھے۔ مشرق والوں کا بہاؤ مغرب کی جانب اور مغرب والوں کا منھ مشرق کی جانب۔ ایک دوسرے کی مخالف سمتوں میں سامان سمیت مطلوبہ ڈبے تک پہنچنا زلف محبوب سر کرنے سے کچھ کم نہ تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نا تاؤ، زور لگا کر ریلتے پیلتے گیٹ کی طرف بڑھ گیا اور پستے پساتے گیٹ کے باہر آگیا۔
اب میرے اندر کا مسافر جاگ اٹھا۔ سیدھا اےسی ڈبے کا رخ کیا۔ ایک ڈبہ میں چند لوگ پہلے سے قابض تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کشادہ قلبی کا ثبوت دیا اور میں اندر آگیا۔ یہاں کا احساس بالکل مختلف تھا، بھیڑ کم تھی، لیکن بے اطمینانی کی سی کیفیت تھی۔ حالات کو بھانپتے ہوئے اگلے ڈبے کا رخ کیا۔ گیٹ سے اترتے ہوئے پینٹی مین کھانا لے کر وارد ہوا اور اس کی کیرٹ (جس میں کھانے کے سامان رکھے تھے) کا نکیلا کونا میری آنکھ کے ایک کنارے پہ اس زور سے آلگا کہ میں کراہ اٹھا: ارےےے!!! اس وقت بحث میں پڑنا خود اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنا تھا۔ میں سنجیدگی سے آشیانے کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اسی کی خاطر ایک دوسرے اے سی ڈبے میں آگیا۔ میں اس زعم میں تھا کہ میرے پاس ایک دوسرے ٹی ٹی صاحب کا نمبر ہے، جو اس آڑے وقت میں امت کے ایک فرد کی دست گیری کریں گے۔ لیکن یہ زعم ہی رہا۔ ڈبے میں ٹی ٹی وارد ہوا۔ سخت لہجے میں خبر لیتے ہوئے مجھے اترنے کو کہا۔ میں اس کا چہرا دیکھتا رہا۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے، اگلا اسٹیشن کانپور ہے، وہاں اتر لیں گے۔ ابھی مجبوری میں اندر آگئے ہیں۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے چلا گیا۔ میں نے سامان ایک جانب رکھ دیا اور دروازے کے پا س ہی دیوار کا سہارا لے کر کھڑا ہوگیا۔
ابھی ذرا راحت کی سانس ہی لی تھی کہ ایک اور مصیبت نازل ہوئی۔ خاکی وردی میں ایک صاحب جثہ، قدآور شخص آ دھمکا۔ داڑھی ٹوپی دیکھ کر رک گیا اور گھورتا ہوا سخت لہجے میں پوچھا: کیا ہے؟
میں نے کہا : کچھ نہیں۔ ٹکٹ ویٹنگ ہے اس لیے یہاں کھڑے ہیں۔
تفتیش کرتے ہوئے کہا: یہاں کیوں؟
میں نے کہا: سر سے بات ہوئی ہے، کانپور میں اتر جائیں گے، مجبورا یہاں آگئے تھے۔
میری باتیں ان سنی کرتے ہوئے وہ اپنا رعب جمانا چاہ رہا تھا، اس لیے زبردستی بحث میں الجھانے لگا۔ میں نے طول نہ دیتے ہوئے چہرے پہ ایک معصوم سی مسکان بکھیرتے ہوئے کہا: اوکے، اٹس انف ۔ اتنے میں ایک اور خاکی آپہنچا۔ یہ قدرے نرم طبیعت تھا۔ آتے ہی دوسرے ڈبے میں جانے کا اشارہ کیا۔ سلیپر ڈبے تک جانے کے لیے درمیان میں ایک پینٹری ڈبہ تھا۔ بڑے بے آبرو ہوکر اے سی کوچ سے سلیپر کوچ کی طرف جانا پڑا۔
پینٹری کوچ کی آخری سرحد پر انسانوں کا ہجوم تھا۔ جہاں لوگ دپکے چھپکے کھڑے اور بیٹھے تھے۔ اس خاکی نے ہم سبھی کو ایسے ہکایا، جیسے آوارہ اور بھٹکے جانوروں کو ہکا کر دور بھگا دیا جاتا ہے ۔ پھر اس ڈبے کے اندر کا گیٹ بند کردیا، تاکہ کوئی ادھر کا ادھر نہ جاسکے۔ سراسیمگی کے عالم میں، میں پروین شاکر کا یہ شعر گنگنانے لگا:
کبھی عرش پر کبھی فرش پر، کبھی ان کے در، کبھی در بدر
غم عاشقی تیرا شکریہ، ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
یہاں ہم پھر سے اسی پچھلی دنیا میں تھے، جہاں جانوروں کا سا ہجوم تھا۔ ایک طرف کووڈ کی مہا ماری اور اس کی ہلڑ بازیاں، دوسری طرف یہ عالم کہ ایک کا سینہ تو دوسرے کی پسلی، لباس نہ ہو تو اس میں بھی تفریق نا ممکن۔۔۔۔۔ میں دبتے دباتے سیٹ کے قریب پہنچ گیا۔ سچ پوچھیں تو ہماری چپلیں ایک دوسرے کے اوپر تھیں، باقاعدہ طور پر کھڑے ہونے کی خواہش دل ہی میں رہی ۔ قریب ہی ایک ہم عمر لڑکا کسی سامان پہ بیٹھا مست تھا۔ اس کا لہراتا ہوا لہجہ مکمل بہاری تھا اور اس میں کشش تھی۔ اس نے میرا بیگ اور فائل ایک طرف ایڈجسٹ کردیا اور راستے بھر خوب ہنستا ہنساتا رہا۔
ٹرین میں بوڑھے بچے خال خال تھے ۔ زیادہ تر جوان تھے، ان میں بھی اکثر فوج کے جوان، جو مشق کے مراحل سے گزر رہے تھے۔ان کے لیے کھڑے سفر کرنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ سرحد پہ پورا دن کھڑے کھڑے گزارنا ان کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے، پھر یہ کچھ دیر کی مشقت ان کے لیے کیا معنی! اصل مسئلہ تو ہم جیسے آرام طلب نازک مزاجوں کا ہے۔۔۔۔۔ فوجی جوان آپس میں محو گفتگو تھے۔ بعض دوسرے یا تو ان کو سن اور دیکھ رہے تھے یا خود گفتگو میں حصہ لے رہے تھے اور کچھ نیند میں مست تھے۔ کانپور آتے ہی بعض لوگ دوسری ٹرین کے لیے اتر گئے۔ اب ذرا راحت ہوئی۔ ہم پاس کی سیٹ کے ایک کونے پہ اٹک گئے۔ یوں سمجھیے کہ جیسے سر چھپانے کی جگہ میسر ہوتی ہے، ٹھیک اتنی ہی جگہ تشریف رکھنے کے لیے بمشکل میسر ہوئی تھی۔
اب مجھے مستی سوجھی۔ ابن بطوطہ کا قول یاد آیا: “Traveling – it leaves you speechless, than turns you into a storyteller’’. (سفر آپ کو خموش چھوڑ دیتا ہے، پھر اس کے بعد داستان گوئی کا موقع دیتا ہے)۔ فوراہی میں نے فون نکالا اور نوٹ پیڈ پہ ان واقعات کو محفوظ کرنا چاہا، مگر دھکا مکی اور بے چین ماحول نے کچھ کرنے نہ دیا۔ بت بنے بیٹھے رہے۔ اس گرم ماحول میں کئی لوگوں سے سرد گفتگو ہوئی۔ میرے سامنے بیٹھا ایک فوجی جوان نے ہمت کرتے ہوئےمخاطب کیا: ارے شیخ جی! کہاں جارہے ہو؟ میں نے جھٹ ہی کہا: علی گڑھ جانا ہے۔ کہنے لگا آپ کو نیند آرہی ہے، آپ یہاں آجایئے۔ میں نیند میں بےحال تھا، اس لیے شرم کیا آتی! فورا ہی سیٹ کا تبادلہ کرلیا۔ میں کنارے والی سیٹ کی ایک جانب بوریہ نشیں ہوگیا۔ یہ جگہ پرسکون تھی۔ مجھے راحت ملی۔ سامنے لمبائی والی دونوں سیٹوں کے جانب لگے راڈ پہ ہاتھ سے ٹیک لگا کر سر رکھ دیا۔ ماحول کچھ دیر تو بڑا پرسکون رہا۔ جب شب کے دو بجے تو اب لوگوں کو ابال آیا۔ آس پاس ہلچل مچنے لگی۔ ایک ایک دو دو کر کے لوگ آتے اور مجھے ڈسٹرب کرتے ہوئے استنجا خانے کی طرف نکل جاتے۔ میری حیثیت ریلوے پھاٹک کی سی ہوگئی تھی، جو کوئی وہاں سے گزرے، اپنی نیند خراب کر کے اس کو راہ دیجیے۔ ابھی یہ سلسلہ تھما نہیں تھا کہ چائے کا سلسلہ شروع ہوا؛ چائے چائے چائے! بے ساختہ میری زبان سے نکلا: ہائے ہائے ہائے! ایسی سراسیمگی کے عالم میں چائے دیکھ کر خون کے ابال میں اضافہ ہونے لگا۔ بے بسی ایسی کہ کرتا بھی تو کیا کرتا! چپ چاپ بغیر کسی شکوہ و گلا کے اپنے فرائض انجام دیتا رہا اور اپنی بد اعمالیوں کی سزا پاتا رہا
۔۳:۱۵ پہ کچھ لوگ سمٹ سمٹ کر گیٹ کی طرف آنے لگے
میں نے فون چیک کیا تو پتہ چلا کہ 3:30 پہ علی گڑھ پہنچنے کا وقت ہے۔ فورا ہی مستعد ہوگئے اور علی گڑھ آتے ہی لا حول پڑھتے ہوئے ٹرین سے اتر گئے۔