تمہاری آتشی نظروں کی جنبش پر مچلنے سے

تمہاری آتشی نظروں کی جنبش پر مچلنے سے
مری تخلیق کا امکاں جنم لیتا ہے جلنے سے

ابھی اُلجھا ہوا ہے زاویہ ہونے نہ ہونے کا
ہمارا ختم ہو جانا نہ سمجھا جائے ڈھلنے سے

سنبھالو دستکیں میری کہ میرے بعد دروازے
نئی آہٹ سے گھبرا کر مکر جائیں گے کھلنے سے

اداسی کے نصابوں میں ہماری کھوج شامل ہو
سِسک ایجاد ہوتی ہے کفِ افسوس ملنے سے

کسی مدھم دیے کی لو امانت ہے مرے اندر
میں ایسے ہی نہیں بچتا زیادہ تیز چلنے سے

سنہرے ہو رہے ہیں سطح سے اٹھتے ہوئے بادل
ترے پانی کی صحبت میں مرے کاغذ کہ گلنے سے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here