وہ ایک قدیم کلیسا میں تنہا بیٹھا، چپ چاپ مقدس مریم کے مجسمے کو دیکھ رہا تھا, جو اس کے سامنے دیوار پر نصب تھا- بنانے والے نے یہ مجسمہ کچھ اس انداز سے تراشا تھا کہ دیکھنے والا ایک دفعہ نظر دوڑاتا تو جیسے خود بھی کسی مجسمے کے مانند ساکت ہو جاتا تھا- ایسی خوبصورتی اس مجسمے کو عطا کی گئی تھی- کلیسا کی چھت اور دیواروں پر بھی کئی مجسمے اور خوبصورت مصوری کے نمونے موجود تھے، لیکن وہ سب اس وقت مقدس مریم کے سامنے ہیچ دکھائی دے رہے تھے- وہ سوچ رہا تھا کہ اگر یہ مجسمہ اس قدر دلکش اور خوبصورت تھا تو پھر حقیقت میں وہ عورت کیسی پرنور اور حسین و جمیل ہو گی- اچانک اسے اس عورت کا خیال آیا جسے اس نے بہت عرصے سے نہیں دیکھا تھا، مگر اس کا لمس آج بھی اسے مسحور کرتا تھا- کیا وہ اس مجسمے جیسی حسین تھی یا پھر وہ مقدس مریم سی تھی۔۔۔ اس نے زور سے سر جھٹکا اور زیرلب بڑبڑایا، کوئی عام عورت اس مریم سی کیسی ہو سکتی ہے بھلا۔۔؟ اسے اپنی سوچ پر شرمندگی محسوس ہونے لگی کہ وہ اس عورت کے تصور میں مریم کو لے آیا تھا- یہ کلیسا کا احترام تھا شاید، جس کی وجہ سے وہ اس عورت کو مریم سے تشبیہ نہیں دینا چاہتا تھا- ورنہ وہ عورت اس کے لیے مقدس مریم ہی تھی- پاکیزہ اور خوبصورت ہی نہیں، اس عورت کا صبر، شکر اور ظرف بھی کمال درجے پر تھا-
رات کا دوسرا پہر تھا، وہ سفر پر جانے کے لیے قدیم طرز کے بنے ایک چھوٹے سے گھر سے نکلنے لگا تو اسے اپنے پیچھے ایک عورت کے چلنے کا احساس ہوا- اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک عورت اسے گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی جسے وہ کئی سال پہلے کھو چکا تھا- اسے کھونے کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے- اس روز تیز بارش اور طوفان نے عجیب ہلچل پیدا کر رکھی تھی جب وہ پیدا ہوا- دن پلک جھپکنے میں گزر گئے اور وہ پانچ سال سے چند دن اوپر کا ہوا تھا جب بازار سے گزرتے ہوئے اس عورت نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گہری نظروں سے دیکھا، اور کہنے لگی، تم اب بچے نہیں ہو- میری بات سنو، میں چاہتی ہوں تم مصوری میں نام پیدا کرو اور ہر اس رنگ کو محفوظ کرو جسے اڑ جانے کا خوف ہو- ان رنگوں کو جذبات میں ڈھالو، انھیں خاکوں میں بدلو لیکن انھیں خوف سے آزاد کرو- وعدہ کرو تم ایسا ہی کرو گے۔۔۔ اور وہ اس عورت کی آنکھوں اور چہرے کو دیکھتا ہی رہ گیا تھا، جس پر بے شمار رنگ قوس قزح کی مانند چمک رہے تھے- اسے آج بھی یاد تھا کہ وہ عورت اسے ایک مصور کے حوالے کر کے چپ چاپ واپس لوٹ گئی تھی، وہ فقط اتنا ہی دیکھ سکا تھا کہ لوٹتے ہوئے اس عورت کی آنکھوں میں آنسو تھے جسے وہ اپنی ہتھیلوں سے صاف کرنے کی کوشش کر رہی تھی- اب تو کئی سال گزر چکے تھے اور اسے خبر نہ تھی کہ وہ عورت زندہ بھی ہے یا نہیں- لیکن یہ سوال اسے کھائے جاتا تھا کہ وہ عورت اسے مصور کے پاس چھوڑ کر کیوں گئی؟ وہ واپس کیوں نہ آئی؟ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے کلیسا میں کسی پرندے کے پر پھڑپھڑانے کی آواز آئی، اس نے بے ساختہ ادھر دیکھا تو ایک سفید کبوتر اپنے پر پھڑپھڑاتا ہوا اڑ رہا تھا- سفید رنگ دیکھ کر ایک مرتبہ پھر اس نے مقدس مریم کے سفید مجسمے کو دیکھا اور پھر اسی عورت کے خیال میں ڈوب گیا جس کو اس نے آخری مرتبہ سفید لباس میں جاتے ہوئے دیکھا تھا-
کیا تم کہیں جا رہے ہو؟ اس نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر کہنے لگا، تم سوئی ہوئی تھی، میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا- عورت سوتے ہوئے بھی جاگتی ہے یہ جانتے ہو تم۔۔۔اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، مجھے معلوم تھا کہ تم رات کے کسی پہر نکلو گے، اسی لیے میں سوتے میں بھی جاگ رہی تھی- جلدی واپس آنا اور کامیاب لوٹنا یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی- یہ سن کر وہ واپس مڑا، اس کی جانب مسکرا کر دیکھا اور پھر کہنے لگا، تم تصویر کی مانند ہر جگہ میرے ساتھ ہو اور میں اس تصویر کو گم نہیں کروں گا- یہ کہہ کر وہ دروازے سے نکلا تو اسے اس مصور کی بات یاد آئی جسے کے ہاں وہ سفید لباس والی عورت اسے چھوڑ آئی تھی- وہ کہتا تھا، “کسی بھی تصویر کے رنگ خراب ہونے ہی ہوتے ہیں، اور پھر کوئی قدردان زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہے کہ حقیقی رنگ خراب ہونے پر مصنوعی رنگ چڑھا دے- مگر عورت تصویر نہیں ہے، یہ تو ایک رنگ ہے، تصویر کائنات کا ایک ایسا رنگ جو تمام رنگوں کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس کے بنا باقی رنگوں کی پہچان ختم ہو جاتی ہے- حقیقی قدردان اس رنگ کو، رنگ اڑا دینے والے عناصر سے محفوظ رکھ کر پوری تصویر کی رعنائی برقرار رکھتے ہیں- وہ مصور اسے ہمیشہ کہتا تھا کہ ہجر ایک ایسا رنگ کاٹ ہے جو اس رنگ کی رعنائی کو زائل کر دیتا ہے- وہ چند لمحے کچھ سوچتا رہا اور پھر دروازے سے باہر نکل گیا- وہ جانتا تھا مصور کی بات کو مزید سوچا تو اس کے قدم یہیں جم جائیں گے اور وہ سفر پر کبھی نہیں جا پائے گا- اسے اس تصویر کے سحر سے نکلنا ہو گا-
کلیسا میں بیٹھا وہ سوچ رہا تھا کہ یہ بات سچ ہے جو اسے کسی نے بتائی تھی کہ حقیر ترین حیوان کی جسمانی ساخت میں، درندے کے تند جذبے میں، وحشی کی شہوت میں، نوجوانوں کی متفکر اور گداز نگاہوں میں، شعراء کے نغموں میں اور داستان گویوں کے افسانوں میں محبت کی جلوہ گری ہے”- اور یہی محبت اسے اپنے حصار میں لے چکی تھی- اسے یہ خیال بھی آ رہا تھا کہ جو عورت اس کے گھر میں خاموشی سے رہتی تھی وہ اس سے بے حد محبت کرتا تھا- اور محبت ہوتی بھی کیوں نا؟ وہ عورت فقط حسین نہیں تھی بلکہ ذہین بھی تھی- اس نے مصور کے ہاں اسے چھوڑ کر اس پہ بہت بڑا احسان کیا تھا- ورنہ آج اسے گناہ کا نتیجہ سمجھ کر دھتکارا جا رہا ہوتا- زمانہ اسے روند جاتا اگر وہ عورت اس پر مہربان نہ ہوتی-
میں ایک مصور ہوں- میرے لیے خوبصورتی کا ایک اپنا الگ معیار ہے- میں دوسرے قصبوں سے مصوری کے ان خاکوں کو بھی خرید لیتا ہوں جسے عام لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں- لیکن جن خاکوں پر عام نظریں نہیں پڑتیں، وہی خاکے میری نظروں کو جلوہ بخشتے ہیں- اس لیے میں کئی کئی ماہ گھر سے دور دراز علاقوں میں ایسی مصوری کے نمونے ڈھونڈتا رہتا ہوں- میرا خیال تھا کہ کسی عورت سے محبت کرنا خوبصورتی کے زمرے میں نہیں آتا- محبت بس ایک احساس ہے جو کبھی بھی جنم لے سکتا ہے لیکن خوبصورتی ایک معیار ہے جو جگہ جگہ حاصل نہیں ہوتا- مگر اب میں اس کی تردید کرتا ہوں- محبت خوبصورتی کا ایک اہم پہلو ہے- جب سے میں اس تصویر کی محبت میں گرفتار ہوا ہوں، مجھے مصوری کا ہر خاکہ اپنی جانب غور کرنے پہ مجبور کرنے لگا ہے- مگر میرا انتخاب اب بھی ویسا ہی ہے- جو عام نظروں سے پوشیدہ ہو، میری نظروں کو خیرہ کرتا ہے- میں نے ایک روز اس مصور سے پوچھا تھا کہ عورت کس طرح کے مرد سے محبت کر سکتی ہے؟ مجھے آج بھی یاد ہے، اس نے بے ساختہ افق کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا کہ ایک ایسے شخص سے جو اپنی انا کو چھوڑ کر، عورت کو ویسے ہی قبول کرے جیسی وہ ہے- اس کچھ چاہے بغیر، مجبور اور زبردستی کیے بنا، اس کی عزت نفس کو روندے بغیر اسے جذبات میں بہا سکے- اچانک کلیسا کی گھنٹی بجی تو وہ ہوش میں آیا- مریم کے مجسمے کے سامنے وہ واقعی ساکت ہو کر نہ جانے کس دنیا میں کھو چکا تھا- شاید محبت کے سحر نے اسے خودکلامی پر مجبور کر دیا تھا- مصور ٹھیک ہی کہتا تھا، مگر اس سارے عرصے میں مصور نے یہ کبھی نہ بتایا کہ وہ عورت کون تھی جو مجھے اس کے پاس چھوڑ کر غائب ہو گئی تھی- میرے پوچھنے پر وہ ہمیشہ مجھے نیا خاکہ بنانے کا حکم دے کر اپنے کام میں مگن ہو جایا کرتا تھا-
اسے قصبے سے نکلے ہوئے تین ماہ ہو چکے تھے، اس دوران وہ کئی اہم اور خوبصورت مصوری کے نمونے خرید چکا تھا- وہ مزید اگلے قصبے کی جانب کوچ کرنا چاہتا تھا مگر اس تصویر کے خیال نے اس کے قدم روک دیے تھے- اس نے شدت سے اس عورت کی کمی محسوس کی اور پھر کلیسا سے باہر نکل کر واپس اپنے قصبے کی جانب چل دیا- اسے معلوم تھا کہ وہ نصف شب تک اپنے گھر پہنچ جائے گا- اس عورت کی اداسی نے اسے مزید تیز رفتاری سے سفر کرنے پر مجبور کر دیا تھا- رات کا تیسرا پہر تھا جب وہ قصبے میں داخل ہوا- چند کتے اس پر بھونکے مگر وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا اپنے گھر کے دروازے کے سامنے آن رکا- کچھ دیر وہ اس بوسیدہ دروازے کو دیکھتا رہا اور پھر آگے بڑھ کر تالا کھولا اور اندر جاتے ہی سامنے دیوار پر لگی ایک خوبصورت اور دلکش عورت کی تصویر سے لپٹ گیا- اس نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا، “مصور ہمیشہ مجھ سے ہر خاکے میں تمہاری ہی شبیہہ بنواتا رہا اور پھر اسے نامکمل کہہ کر رد کرتا رہا، یہاں تک کہ میں نے ایک روز اپنے تصور میں مقدس مریم کو رکھ کر تمہارا آخری خاکہ بنایا- اس مصور نے وہ قبول کیا اور کہا کہ ہاں، وہ تمہاری ماں ایسی ہی تھی جس نے تمہیں کبھی نہیں جنا- وہ بانجھ تھی، لیکن تمہیں کچرے کے ایک ڈھیر سے اٹھا کر اپنانے کی چاہت میں معاشرے کے خودساختہ پاکیزہ اصولوں سے لڑ بیٹھی- پانچ سال تک لڑتے لڑتے وہ تھک گئی اور پھر اک روز وہ تمہیں مجھے سونپ کر مایوسی کی گھاٹیوں میں اتر کر ایک بہتے دریا میں کود گئی تھی- یہ کہہ کر وہ اس تصویر میں کھو گیا۔۔۔ جیسے مقدس مریم اس کے سامنے آن کھڑی ہو۔