تصویر کی تھوڑی سی وضاحت ہی تو کی ہے
ہر بات مصور نے کہاں ہم سے کہی ہےہو اسکو مٹانے میں اسے کیسا تامل
دنیا یہ بھلا کون سا مشکل سے بنی ہےمشکیزۂ ہستی پہ بہت تیر لگے ہیں،
اور چاروں طرف تشنہ لبی تشنہ لبی ہےآغاز بھی مجھ سے ہے اور انجام بھی مجھ پر
دنیا مری ہم عمر ہے چھوٹی نہ بڑی ہے!اک خواب تھا تیرا جو مری لے گیا آنکھیں
اک یاد ہے تیری جو گلا گھونٹ رہی ہےبس ایک وہ انکار پرانا ہے سلامت
باقی تو مرے شہر میں ہر چیز نئی ہےبس شعر سنانے کی ہمیں دی ہے اجازت
اسنے ہمیں رونے کی سہولت کہاں دی ہےاب خیمۂ دل کا ہے سفر پہرا ضروری
الفت کی طنابوں کو ہوس کاٹ رہی ہے