تنہائی میں کرتا ہے فسادات کی باتیں
محفل میں کرے ہے جو مساوات کی باتیں
تم جب سے گئے ہو یہی دو چار بچی ہیں
دن رات کی، برسات کی،بے بات کی باتیں
پھولوں کو مسلتا ہے بڑی سنگ دلی سے
کلیوں سے وہ کرتا ہوا باغات کی باتیں
شب بھر کے اندھیروں سے سوالات کا عالم
دن بھر کے اجالوں سے جوابات کی باتیں
آنکھوں سے جو دکھتا ہے وہ سمجھا نہیں جاتا
میں کیسے کروں رمز و اشارات کی باتیں