تلاش انسانیت

یہ دنیا مختلف رنگ و نسل کے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں کوئی گورا ہے تو کوئی کالا، کوئی سانولا ہے تو کوئی بھورا، کوئی عالم ہے تو کوئی جاہل، کوئی زیادہ پڑھا لکھا ہے تو کوئی کم، کوئی تجربہ کار ہے تو کوئی غیر مجرب، ان تمام اوصاف کے لوگ اسی فانی دنیا میں پاے جاتے ہیں۔

ائی اے ایس، پی سی ایس کی ڈگریاں لیکر ڈی ایم، اے ڈی ایم، ایس ڈی ایم اور بہت سی ڈگریوں والے لوگ مل جائیں گے۔ کوئی جج کی کرسی پر بیٹھا ہے تو کوئی رکھوالے کی، طبیب،حکیم ڈاکٹر،وکیل ،منشی،پولیس،

مولوی ،متولی،ٹیچر،منتظم سکریٹری یہ محترم عہدہ کے لوگ چلتے پھرتے نظر آجائیں گے۔ ہماری تقسیم کے اعتبار سے چھوٹے عہدوں میں چپراسی،بھنگی،اور معمولی کام کاج کرنے والے لوگ بآسانی مل جائیں گے۔ لیکن صدیوں کے الٹ پھیر یا یوں کہیں حضرت آدم کے بعد سے آج تک جستجو کثیر کے بعد بھی جو چیز کمیاب ہے وہ ہے انسانیت جو بہت ہی جد وجہد کے بعد کہیں کہیں ہی نظر آتی ہے۔

کبھی کبھی تو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ کہیں کسی دن قحط انسانیت ہی نہ پڑ جائے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو لوٹنے میں پڑا ہے چاہے وہ اعلی عہدہ کا آئی اے ایس ہو یا کمتر عہدہ کا چپراسی۔ رکشہ والا ہو یا جہاز اڑانے والا، ہر کوئی 10 روپئے کی قیمت کی بیس ،تیس لے کر خوش ہوتا نظر آتا ہے۔ رکشہ والے،خصوصی طور پر ای رکشے والے تو چہرہ پہچانتے ہی کے یہ اپنے اطراف کا نہیں ہے کوشش کرتے ہیں کہ بندہ کی آنے والی نسلوں کا بھی کرایہ اسی سے ادا کروا لو غرض کہ کوئی سامان یا کام اس کی معینہ قیمت پر اگر کبھی ہوجاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ مگرمچھ کے منہ سے اس کا شکار نکل گیا ہو

جہان یہ ماحول و حالات ہو وہاں انسانیت ڈھونڈھنا نہایت احمقانہ عمل ہے لیکن بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ اچھے لوگ نہ ہوتے تو دنیا کب کا ختم ہوگئی تھی شعور سے لیکر اب تک ایسے ہی اچھوں کی تلاش کر رہا تھا جو اپنی اچھائی کی وجہ سے دنیا کاخاتمہ روکے ہوے ہیں اور نئی نسلوں کو آنے کا موقع فراہم ہو رہا ہے

آخر ایک دن میری حسرت و امید کو زندگی مل ہی گئی

وطن عزیز سے لکھنؤ کا سفر کر رہا تھا بس اپنے لائحہ عمل سے تاخیر تھی بھوک و پیاس کا غلبہ بھی تھا گوگل پر سرچ کیا کہ گاڑی اپنی رفتار کے اعتبار سے منزل مقصود پر کب پہونچے گی 45 منٹ اسکرین پر نظر آیا خوش ہوا کہ چلو ایک گھنٹہ کے درمیان ہر حال میں منزل پر پہونچ کر دم لوں گا لیکن اچانک بس کی رفتار کم ہوئی اور ایک ڈھابہ کی طرف مڑنے لگی ایسا لگ رہا تھا میری نبض حیات یا تو سست ہوگئی ہے یا دباؤ بڑھ گیا ہو گاڑی رکی بے چینی کی کیفیت میں باہر نکلا ادھ ادھر یوں ہی بلا مقصد ٹہلنے لگا باہر کی چیزوں سے پرہیز کی بنا پر بہت سی کھانے پینے کی اشیاء ہونے کے باوجود میرے لئے نہ کے برابر تھی

پاکیزہ غذا کی تلاش میں تھا کے اچانک میری نگاہ ایک تحریر پر آکر اٹک گئی اب بھوک و پیاس کا ہوش نہ رہا بے چینی رفو ہو گئی سالہا سال کی تلاش ختم ہوئی بھوسے کے منڈیل سے تنکۂ انسانیت دریافت ہوا اور وہ اچھا انسان پا گیا جسکی وجہ سے آج بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا چل رہی ہے یعنی اچھے انسان بھی موجود ہیں

آپ سوچ رہے ہونگے کہ وہ تحریر کیا تھی جس کے پڑھنے سے میری بےکلی سکون میں تبدیل ہوگئ الجھنوں سے نجات مل گئی امیدوں کو یقین مل گیا اور سب سے بڑی بات آدمیںت کے درمیان انسانیت کا حصول ہوگیا اتنا پڑھنے کے بعد آپکا حق بھی بنتا ہے کہ آپ جانیں وہ تحریر کیا تھی یقینا آپ کو بھی ویسا ہی محسوس ہوگا جو میں نے محسوس کیا کیونکہ انسانیت کی تلاش سب کو ہے لیکن آب حیات کی طرح اس جام کو کوئی خضر ہی پی پاتا ہے اس تحریر کے قریب گیا اس کے ٹھیک نیچے کھڑے انسان سے پوچھا کہ کیا یہ تحریر صحیح و سچ ہے اس نے گردن ہاں میں ہلائی اور چاے بنانے لگا میں نے پھر پوچھا بھائی سچ بتاؤ کیا یہ تحریر حقیقت ہے “”دودھ بچوں کے لئے فری ہے””؟ اس نے مسکرا کے پو چھا کتنے بچے ہیں؟ جواب دینے سے پہلے خود ہی کہنے لگا جتنے ہو آپ سب کے لیے فری میں لے جا سکتے ہیں اور یہ کہہ کر بوتل مانگی۔ لائیے بچوں کے لئے بھر دیں۔ اس کی اس سخاوت اور محبت انسانیت کو دیکھ کر ایک تاریخی واقعہ ذہن میں گردش کر گیا اور آنکھوں کو نم بھی کر گیا کہ کاش ایسا انسان چودہ صدی پہلے کربلا میں بھی ہوتا تو دودھ نہ سہی چھ ماہ کے بچے کو پانی ضرور مل جاتا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here