تخلیق کار

         ایک تخلیق کار جتنا حساس ہوتا ہے اتنا ہی بے حس ہوتا ہے، جتنا متحرک ہوتا ہے اتنا ہی منجمد ہوتا ہے، اس کا ذہن جتنا وسیع ہوتا ہے اتنا ہی تنگ ہوتا ہے، جتنی اس کے خیالات میں بلندی آتی ہے وہ اتنا ہی سطحی ہو جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں سن کر لگتا ہے کتنی احمقانہ باتیں ہیں کہنے والا بے وقوف اور پاگل معلوم ہوتا ہے۔ بھلا ایک شخص ایک وقت میں ایک ساتھ منفی اور مثبت رویوں کا امتزاج کیسےہو سکتا ہے۔ یہ تمام باتیں عجیب ضرور ہیں لیکن جھوٹی قطعاً نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے ایک تخلیق کار کی حقیقت بالکل اسی طرح جس طرح ایک تخلیق کار کا تخلیق کار ہونا حقیقت ہے۔ یقین نہ آئے تو کسی تخلیق کار سے اس کے تخلیقی عمل کے دوران اس کی دلی کیفیت اس کی ذہنی کشمکش، کسی حادثے یا واقعے کے دوران اس کی ذہنی اور جسمانی موجودگی کے حوالے سے معلومات دریافت کر سکتے ہیں۔ اور جو تخلیق کار ہیں وہ خود اپنے تخلیقی عمل کے دورانیہ کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

کوئی حادثہ ہو کوئی خوشی ہو کوئی غم ہو کوئی دنیا میں آئے یا دنیا سے جائے ایک تخلیق کار ہر واقعے کو ہر موقعے کو ایک موقع جانتا ہے اپنے تخلیقی عمل کے حرکت میں آنے کا موقع۔ کوئی خوشی جتنی زیادہ مسرت آمیز ہوگی کوئی غم جتنا زیادی درد انگیز ہوگا ایک تخلیق کار کے لیے وہ اتنا ہی سنہرا موقع ثابت ہوگا۔ ایک تخلق کار جب کسی موت میں جاتا ہے تو اول تو وہ ان تمام افراد کی طرح ہوتا ہے جو مرنے والے کے عزیزوں کے غم میں شریک ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنے تمام حواسوں کے ساتھ اس ماحول کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ جب وہ اپنی آنکھ سے اس مردہ لاش کو دیکھتا ہے۔ اس کے پیاروں کو آہ و زاری کرتے دیکھتا ہے۔ جب وہ اپنے کانوں سے لوگوں کے رونے چیخنے چلانے کی آوازیں سنتا ہے۔ جب وہ اپنے ہاتھوں سے اس بے جان جسم کو چھوتا ہےاور اس کے لمس کی تاثیر کو اپنی روح تک جاتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔ جب اس کا دل ان تمام لوگوں کے درد کو اپنا درد سمجھنے لگتا ہے ان سب کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر محسوس کرتا ہے تو اس کی حساس طبیعت ک مطابق ان تمام باتوں کا اس پر اتنا اثر ہوتا ہے اتنا اثر ہوتا ہے کہ اس کی حساسیت انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور یہیں سے اس کی بے حسی کا آغاز ہوتا ہے اس بے حسی کا جو اسے اس ماحول اس درد اس غم سب سے بے حس بنا دیتی ہے۔ وہ جسمانی طورپر اس مجمعے میں موجود رہتا ہے لیکن اس کا ذہن کسی خلا میں سیر کرنے نکل جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ایک تخلیق جنم لینے لگتی ہے۔ اس کے ذہن میں موجود ایک تخلیقی کیڑا ان تمام چیزوں کو دیکھ کر کسی افسانے کسی نظم یا کسی دلدوز مرثیے کا خاکہ تیار کرنے لگ جاتا ہے۔ پھر وہ موت وہ حادثہ اسے اپنے افسانے کا پلاٹ نظر آنے لگتا ہے۔ وہ میت وہ مردہ جسم اسے اپنے افسانے یا نظم کا ہیرو نظر آنے لگتا ہے جس کی زندگی میں کی گئی کارکردگیوں سے اسے اپنی تخلیق کے لیے مواد جمع کرنا ہوتا ہے۔اس کی روتے بلکھتے ہوئے ماں باپ اس افسانے کے اہم کردار بن جاتے ہیں جن کا رونا چیخنا چلانا غرض ان کے ماتم کی ہر ہر جزیات اسے اپنے افسانے کو متاثر کن بنانے کا حربہ نظر آتی ہیں۔ اس مجمعے میں گریا و زاری کرتے ہوئے مخصوص لوگوں کو وہ اپنے افسانے کے مخصوص کرداروں کی صورت میں دیکھنے لگتا ہے۔ اب لوگوں کا وہ رونا وہ آہ و زاری کرنا اسے صرف ایک غم معلوم نہیں ہوتا اب وہ اس کے لیے ایک موقع بن جاتا ہے۔ ایسا موقع جو اس کی نئی تخلیق کے لیے مواد فراہم کرتا ہے۔ اب اس میت کا کفن اسے محض ایک سفید کپڑا معلوم نہیں ہوتا اب وہ اس کے نئے نئے دردانگیز نام سوچنے لگتا ہے مثلاً نیا جوڑا، آخری جوڑا وغیرہ وغیرہ۔ وہ اس میت کی خوشبو کو کوئی عام خوشبو نہیں سمجھتا بلکہ وہ اسے ہیشہ قائم رہنے والی خوشبو جانتا ہے جو ایک دفعہ رگوں میں بس جائے تو پھر کبھی اس کی مہک نہیں جاتی۔ غرض کے اس دوران کیے جانے والے ہر ہر عمل کو وہ اپنے تخلیقی مواد کی فراہمی سمجھتا ہے۔ وہ کسی رپورٹ کی طرح ایک ایک جزیات کو اپنے ذہن کی سلیٹ پر لکھ لیتا ہے۔ بظاہر وہ اسی مجمعے میں بیٹھا ہوتا ہے لیکن وہاں موجود ہوکر بھی وہ کب وہاں سے غائب ہوجاتا ہے اس کا علم خود اسے بھی نہیں ہوتا۔ اگر وہاں موجود لوگ اس کی ذہنی کیفیت سے واقف ہو جائیں تو وہ اسے ایک بے حس مطلب پرست انسان کے خطاب سے نواز دیں گے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اس بے حسی کی وجہ اس کا حد درجہ حساس ہونا ہے ۔ اگر وہ اس قدر حساس نہ ہوتا تو اتنا بے حس بھی نہ ہوتا۔

ایک تخلیق کار کے ذہن اور اس کی ذہنیت کو ماپنے کا کوئی آلہ نہیں۔ اس کے دماغ میں کب کیا عبارت تحریر ہو رہی ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اگر کسی تخلیق کار کو محبت ہو جائے تو اس کی محبت مکمل ہو یا نہ ہو لیکن امر ضرور ہو جاتی ہے۔ وہ خود اپنی محبت کو فراموش کر سکتا ہے لیکن اس کی تخلیق کبھی اس کی محبت کو مرنے نہیں دیتی وہ ہمیشہ اسے زندہ و تابندہ رکھتی ہے۔ ایک تخلیق کار کبھی اپنے محبوب کی وفا اور راست بازی سے متاثر ہوکر ڈھیروں افسانے لکھ دیتا ہے تو کبھی اس کی بے وفائی سے عاجز آکر نظموں کے انبار لگا دیتا ہے۔ گویا اسے کوئی محبوب نہ ملا ہو بلکہ کوئی دلکش مضامیں کا خزانہ مل گیا ہو۔ جس سے وہ جب چاہے کوئی مضمون نکال کر ایک نئی تخلیق کو جنم دے سکتا ہے۔ اور اگر یہ تخلیقی مہارت شاعری میں ہو تو بس پھر نہ عاشق رہتا ہے نہ معشوق پھر بس شاعری رہتی ہے۔ وہ تخلیق کار محبت میں شاعری کرنے لگتا ہے اور شاعری سے محبت کرنے لگتا ہے۔ پھر وہ اپنے محبوب سے باتیں نہیں کرتا وہ شعر کہتا ہے وہ اپنے محبوب سے گلے شکوے نہیں کرتا وہ غزل کہتا ہے۔ جب کبھی وہ اپنے محبوب کی یاد میں روتا ہے تو کوئی نظم وجود میں آتی ہے۔ کتنے ہی مضامین وہ اپنے محبوب کی صورت میں حاصل کرتا ہے۔ کبھی اس کے لب کبھی رخسار،کبھی اس کی آنکھیں تو کبھی زلف کبھی چوڑی کبھی کنگن کبھی اس کی چال کبھی ڈھال کبھی اس کا دوپٹہ تو کبھی اس کا حجاب یہاں تک کہ اس کی ناک کمر اور گردن نہ جانے کتنے ہی مضامین ایک محبوب کی شکل میں اس کو مل جاتے ہیں۔ غرض ایک شاعرکے لیے محبت کرنا اس کے شاعری کے دھندے کو جلا بخشتا ہے۔ پھر اگر یہ محبت ناکام بھی ہو جائے تو ایک شاعر کو کبھی نقصان نہیں اٹھانا پڑتا اسے کوئی ناکامی نہیں ہوتی بلکہ جتنا وہ عشق میں ناکام ہوتا ہے اتنا ہی اس کی شاعری میں حسن بڑھ جاتا ہے اتنی ہی اس کی شاعری پروان چڑھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعرا نے ہمیشہ ہجر کو وصل پر ترجیح دی ہے۔ کیونکہ جو درد جو تکلیف جو غم ہجر میں نصیب ہوتا ہے وہ وصل میں کہاں۔ اور یہ بات سو فیصد سچ ہے کہ کبھی مسرتوں اور آسائشوں کے درمیان خوبصورت اور متاثرکن شاعری جنم نہیں لیتی۔ درد شاعری کے لیے لازمی ہے پھر چاہے وہ محبت سے ملے یا محنت اور لاچاری سے۔ اگر کسی شاعر کا محبوب اس پر جفائیں نہ کرے اس پر ستم نہ کرے اس سے بے رخی اختیار نہ کرے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ظلم ہو رہا ہے ۔ اگر کبھی اسے اپنے محبوب سے وصل میسر آ جائے تو اسے اپنی شاعری برباد ہوتی نظر آتی ہے اپنا شعری مضامیں کا اتاہ خزانہ لٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہیں اگر کسی شاعر کا محبوب اس سے بے وفائی کر جائے تو وہ اس غم میں جانے کتنی ہی غزلیں کہہ دیتا ہے جانے کتنی ہی نظمیں لکھ دیتا ہے۔ غرض اس کے محبوب کی بے وفائی اسے اتنا دکھ دیتی ہے اتنا دکھ دیتی ہے کہ جب وہ ایک عرصے بعد اس دھوکے اور بے وفائی کے سبب وجود میں آئے اپنے تخلیقی کارناموں کو دیکھتا ہے تو یہ دکھ اس کے لیے خوشی کا باعث بن جاتا ہے۔ اسی لیے ایک شاعر اپنےمحبوب کو بت بناکر اسکی پوجا کرتا ہے ۔ اس کی جفاؤں کو اس کی بے رخی کو اس کی جانب سے ملنے والا انمول پرساد سمجتا ہے۔ گویا کہ وہ اپنے محبوب کو اپنی شعری کامیابی کا آلہ کار بنا لیتا ہے۔

اور رہی بات محبت کی تو محبت کےمعاملے میں ایک تخلیق کارکا دل یا تو بہت سخت ہوتا ہے یا بہت کمزور ہوتا ہے۔ جب اس کا دل کسی ایک شخص پر آکر رک جاتا ہے تو دنیا کی کوئی شے اس کا متبادل نہیں بن سکتی اور دنیا ہی کیا جنت کی کوئی حور بھی اس کا متبادل نہیں بن سکتی۔ اس ایک شخص سے محبت کے بعد ایک تخلیق کار کا دل ہر دوسرے شخص کے لیے اس قدر سخت کو جاتا ہے کہ وہ بے تہاشا حسین اور خوبرو ہونے کے باوجود اس کے سامنے محض ایک مٹی کے ڈھیر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ غرض اپنی زندگی میں آنے والے ہر دوسرے شخص کے لیے اس کا دل پتھر ہو جاتا ہے وہ پتھر کہ جس پر آپ سر پیٹ پیٹ کر مر جائیں گے تب بھی وہ نہیں پگھلے گا۔ یہیں اگر کسی تخلیق کار کا دل اس معاملے میں کمزور ہو تو وہ اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ اسے ہر دوسرے شخص سے شدید قسم کی محبت ہو جاتی ہے۔ وہ ایک گلی میں ایک شخص کو دیکھ کر اس سے محبت کر لیتا ہے تو دوسری گلی میں دوسرے شخص کو دیکھ کر اس پر عاشق ہو جاتا ہے۔ گویا اسے ہر اچھے دکھنے اور ہر اچھےلگنے والے شخص سے محبت ہو جاتی ہے۔ ہر دوسرا نظر آنے والا شخص اسے دنیا کا حسین ترین شخص معلوم ہوتا ہے۔ اسے ہر آنکھ ایک جھیل نظر آتی ہے جس میں وہ ڈوب جانا چاہتا ہے۔ ہر لہراتی ہوئی زلف اسے گھنے بادل کا سایا نظر آتی ہے جس کی چھاؤں تلے وہ اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اور وہ اپنی اس خواہش کو اس عمل کو کوئی عیب نہیں جانتا وہ خود کو حسن شناس کہتا ہے۔ حسن اور حسین چیزوں کی قدر و ستائش کرنا وہ عین ثواب کا کام سمجھتا ہے۔ بعض اوقات وہ اپنے معاشقوں کی فہرست لمبی ہوتی دیکھ خود پر ایک عجیب قسم کا فخر محسوس کرتا ہے۔ اور کچھ تخلیق کار اپنے تخلیقی عمل کا جوہر دکھاتے ہوئے اپنے اس عمل کا بیان اس خوبصورت انداز میں کرتے ہیں کہ ان کی آنے والی نسلیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کو اپنا اعجاز سمجھتی ہیں۔ ایک تخلیق کار کی زندگی کا ہر مرحلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہوتا ہے اسی میں سے ایک مسئلہ ہے شادی! جی ہاں شادی، ایک تخلیق کار شادی کے معاملے میں یا تو بالکل مزہبی نہیں ہوتا یا تو بہت مزہبی ہوتا ہے۔ یعنی یا تو وہ خدا کے قانون کو نکارتے ہوئے کبھی شادی ہی نہیں کرتا یا تو سنتِ رسول نبھاتے ہوئے دو، چار یا بعض اوقات اس سے بھی زائد شادیاں کرتا ہے۔ اور اگر اس کے گھروالوں یا بیوی کی لاٹھی سخت ہو وہ اسے اس سنت پر عمل پیرا نہ ہونے دیں تو وہ اس خلا کو اپنے معاشقوں سے پر کر لیتا ہے۔

ایک تخلیق کار کا ذہن اتنا متحرک ہوتا ہے کہ وہ غم کے موقعے پر خوشی اور خوشی کے موقعے پر غم کا پہلو ڈھونڈ لیتا ہے۔ کبھی اس کے خیالات اتنے وسیع ہو جاتے ہیں کہ وہ آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے سے موضوعات تلاش کر لیتا ہے۔ کبھی اس کے خیالات کی وسعت اسے بھنگی، گدھے، لحاف اور شلوار جیسے سطحی موضوعات پر قلم اٹھانے کےلیے آمادہ کرتی ہے۔ ایک تخلیق کار اگر مر بھی جائے تو بھی وہ مرتا نہیں ہے وہ اپنی تخلیق میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ وہ اپنے انداز و بیان کے ذریعے ہر وقت بولتا رہتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر خاندان دوست احباب سب کو اپنی تخلیق کے ذریعے امر کر جاتا ہے۔ اس کے کسی افسانے میں اس کا کوئی دوست بولتا ہوا نظر آتا ہے تو کسی کہانی میں اسکے بھائی بہن اس کے ساتھ کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ کسی نظم میں اس کا باپ اسے مشورہ کر رہا ہوتا ہے تو کسی شعر میں وہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سو رہا ہوتا ہے۔ الغرض ایک تخلیق کار نہ کبھی خود مرتا ہے نہ اپنے پیاروں کو مرنے دیتا ہے۔ ایک تخلیق کار ایک ساحر ہوتا ہے جو اپنے تخیلات کے سحر سے اپنے گرد ایک نئی دنیا وجود میں لاتا ہے اور اس دنیا میں اپنی مرضی کے کردار گڑھتا ہے پھر ان کرداروں کے ذریعے اپنے جزبات و احساسات کی تسکین کرتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here