تب صفحہ صفحہ کیسا کھلا جا رہا تھا میں

Image Source: Unsplash

تب صفحہ صفحہ کیسا کھلا جا رہا تھا میں
تم چھو رہی تھی اور جَلا جا رہا تھا میں

پھر واپسی پہ دور سے دیکھا تری طرف
دیکھا، تری طرف کو چلا جا رہا تھا میں

میں رو رہا تھا اور دٌھلی جا رہی تھی تم
تم رو رہی تھی اور دٌھلا جا رہا تھا میں

اتنی سکت کہاں تھی کہ خود کو رفو کروں
کچھ دوستوں کہ ہاتھوں سِلا جا رہا تھا میں

لہریں تو مانتی تھیں کنارہ مجھے مگر
کٹ کٹ کہ خود ندی میں مِلا جا رہا تھا میں

چھو چھو کہ ہاتھوں ہاتھ گزارا گیا مجھے
ٹھہرے ہوئے تھے لوگ ٹَلا جا رہا تھا میں

میں قطرہِ سکوں کی تراوٹ سے ڈر گیا
کیسی نمی ہوئی تھی گَلا جا رہا تھا میں

شطرنجِ زندگی میں عجب الجھنیں رہیں
میری مخالفت میں چلا جا رہا تھا میں

وہ تو بھلا ہو مجھ کو خزاں نے جگا دیا
ورنہ کسی گماں میں کِھلا جا رہا تھا میں

سب چاہتے تھے میرے وسیلے سے ہو سحر
خواہش مری بھی تھی پہ ڈھلا جا رہا تھا میں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here