تب صفحہ صفحہ کیسا کھلا جا رہا تھا میں
تم چھو رہی تھی اور جَلا جا رہا تھا میںپھر واپسی پہ دور سے دیکھا تری طرف
دیکھا، تری طرف کو چلا جا رہا تھا میںمیں رو رہا تھا اور دٌھلی جا رہی تھی تم
تم رو رہی تھی اور دٌھلا جا رہا تھا میںاتنی سکت کہاں تھی کہ خود کو رفو کروں
کچھ دوستوں کہ ہاتھوں سِلا جا رہا تھا میںلہریں تو مانتی تھیں کنارہ مجھے مگر
کٹ کٹ کہ خود ندی میں مِلا جا رہا تھا میںچھو چھو کہ ہاتھوں ہاتھ گزارا گیا مجھے
ٹھہرے ہوئے تھے لوگ ٹَلا جا رہا تھا میںمیں قطرہِ سکوں کی تراوٹ سے ڈر گیا
کیسی نمی ہوئی تھی گَلا جا رہا تھا میںشطرنجِ زندگی میں عجب الجھنیں رہیں
میری مخالفت میں چلا جا رہا تھا میںوہ تو بھلا ہو مجھ کو خزاں نے جگا دیا
ورنہ کسی گماں میں کِھلا جا رہا تھا میںسب چاہتے تھے میرے وسیلے سے ہو سحر
خواہش مری بھی تھی پہ ڈھلا جا رہا تھا میں