سکوں تو ہے مگر دل کی پریشانی نہیں جاتی
نہ جانے کیوں وہی اب تک پشیمانی نہیں جاتی
بہت کچھ ناز تھا ہم کو تمہاری آشنائی پر
مگر یہ شکل کیسی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت کا یہ بحرِ بیکراں ہے اس کو کیا کہئے
سفینے ڈوبتے رہتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
اچانک تیری آمد پر بہت حیرت زدہ ہوں میں
مری آنکھوں کی اب تک دیکھ حیرانی نہیں جاتی
بظاہر تو جھکا لیتی ہے نظریں دیکھ کر مجھ کو
مگر پھر بھی تری آنکھوں کی عریانی نہیں جاتی