شب کو محفل میں ہماری خوب رعنائی رہی
درد و غم تھے اور ہم تھے اور تنہائی رہی
خواب میں بھی گر ملے تو ہم ملے تھے اس طرح
اس کا تو سایا رہا تھا میری پرچھائی رہی
وہ ہی خالق وہ ہی رازق وہ ہی واحد وہ غنی
کون ہے اس کے سوا وہ جس کی یکتائی رہی
اک بیانِ عشق کےہیں دو نتیجے کس طرح
آپ کی شہرت رہی کیوں میری رسوائی رہی
بس خلائیں ہی خلائیں دور تک پیشِ نظر
تیرگی ہی تیرگی تھی جتنی بینائی رہی
چاند سورج پھول خوشبو سب میسر تھے مگر
میرے آنگن میں تمہاری ہی کمی چھائی رہی
اک تصور نے تمہارے حال ایسا کر دیا
مجھ کو محفل میں بھی اکثر پیش تنہائی رہی
وہ جفائیں وہ تغافل آہ وقتِ مرگ بھی
یاد مجھ کو ہر ادا وہ تیری ہرجائی رہی
عشق نے مجھ کو غریقِ شوقِ بے جا کر دیا
دور سے ہی دیکھتی سب میری دانائی رہی
عشق کا رستہ ابد سے مثلِ آتش ہے سحر
اک طرف اس کے کنواں اور اک طرف کھائی رہی