شبِ فراق میں بھی وصل سا سرور رہا

Image Source: istock

شبِ فراق میں بھی وصل سا سرور رہا
رہا نہ پاس مرے وہ نہ مجھ سے دور رہا
کریں گے عشق، اڑائیں گے خاک صحرا میں
کہ کم سنی سے ہمیں اک یہی فطور رہا
ترس گئے ہیں جسے دیکھنے کو ماہ و مہر
وہ شوخ پیکرِ ضو، بس مرے حضور رہا
کلیم حسرتیں کرتے ہی رہ گئے آخر
مگر نصیب تو دیکھو کہ نذرِ طور رہا
سرائے دل میں نہیں اک پلک بھی تنہائی
کوئی نہ کوئی یہاں دم بہ دم ضرور رہا
عجیب حال ہے صائنؔ کہیں تو کس سے کہیں
کہ پستیوں پہ ہمیں کس قدر غرور رہا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here