سگِ زمانہ ہیں ہم کیا۔۔۔۔

شاعری دراصل اپنے افکار و نظریات احساسات و جذبات اور تجربات کو خوبصورت و بامعنی الفاظ کے پیرایے میں پرو کر منظر عام پر پیش کرنا ہے جس سے کہ عوام و خواص، ہنر مندان آئینِ سیاست اور خدوندان ایوان عقائد جہاں ایک جانب تو حظ اُٹھائیں وہیں دوسری جانب درپیش مسائل کے حل پر غور کریں۔

اردو زبان کے صف اول کے شاعر محمد قلی قطب شاہ اور ولی دکنی سے چل کر یہ روایت میر تقی میر، خواجہ میر درد، مرزا غالب، ابراہیم ذوق، داغ دہلوی، علامہ اقبال، اسرار الحق مجاز، یاس یگانہ چنگیزی، میرا جی، فراق گورکھپوری، نشور واحدی، ساقی فاروقی، ثروت حسین، ادا جعفری، اکبر الہ آبادی، زہرا نگاہ، پروین شاکر، جون ایلیا، فیض احمد فیض، احمد فراز اور دیگر شعرا کو اپنے رنگ میں رنگتی ہوئی ہمارے عصر میں آ پہونچی، جہاں اس نے اپنی خاندان میں نت نئے اضافے کیے اور جہانِ ادب کو ایسے ماہ پارے عطا کیے جو ضرب المثل ہیں،

اسی روایتی کڑی کے ایک شاعر افتخار حسین عارف صاحب ہیں جو 1940 کو مشترکہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے، ہوش سنبھالتے ہی عہد طفولیت میں ہی اپنے دامن پہ تقسیم کا داغ چڑھ گیا (جو داغ اکثر الفاظ کا جامہ پہن کر ان کی شاعری میں بولتا دکھائی دیتا ہے )، بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کرنے کے بعد کولمبیا یونیورسٹی سے جرنلزم کا کورس مکمل کیا،

اپنی پڑھائی کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے بعد مستقل طور پر پاکستان ہجرت کر گئے،

پاکستان جا کر ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلیویژن اور دیگر خدمات انجام دیں اور فی الوقت ادارہ مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہیں !

شعری سفر کا نقطۂ آغاز یوں تو خانگی ماحول کا اثر تھا، موصوف کے نانا محترم – جو کہ ان کے کفیل بھی تھے- شعرا کے مجموعہ کلام ان کو لاکر دیتے اور اس میں بہترین اشعار کی نشاندہی کر دیتے، سر شام گھر پر آنے والے مہمان بھی کچھ سخن فہم اور شعری مذاق رکھنے والے ہوتے جس میں آنجناب کو اس بات کی تاکید ہوتی کہ وہ باآواز بلند سب کو اشعار پڑھ کر سنائیں گے،

اسکول کے زمانے سے بیت بازی کے مقابلوں کا سلسلہ آغاز ہوا جو کالج اور یونیورسٹی تک جاری و ساری رہا، افتخار عارف بدستور ان میں انعامات پاتے رہے اور ان کے اندر کے شاعر کی تربیت ہوتی رہی،

بچپن کے مقابلے میں ان کی زبان سے فی البدیہہ نظم سن کر سامعین مبہوت رہ گئے تب سے افتخار عارف اب تک اپنے ہنر سے لوگوں کو حیران کرتے چلے آرہے ہیں۔

ان کا مزاج بچپن ہی سے شاعرانہ تھا ایک جگہ اس راز سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہتے ہیں “بیت بازی کے لیے ہزاروں شعر اساتذہ سے لے کر اپنے عہد تک کے شعرا کے یاد تھے، ایسی صورت میں خود بہ خود آدمی وزن سے بحر سے ردیف و قافیے وغیرہ کے ابتدائی مسائل سے واقف ہو جاتا ہے، مگر اصل شاعری میرے نزدیک کچھ اور ہوتی ہے”

بعد از ہجرت پاکستان مشاعرے، مذاکرے، مکالمے اور ڈرامے کون کون سے منزل سے ان کا گزر نہیں ہوا، اس ماحول نے انہیں صیقل کر دیا، شب و روز ادبی فضا میں گزرتے، ٹیلیویژن پر “چپ دریا” کے نام سے ان کی غزلوں کو آواز ملی، “کسوٹی” نے گھر گھر ان کی ذہانت کا ڈنکا بجایا الغرض اس عہد نے افتخار عارف کو شناخت بخشی۔

مبین مرزا افتخار عارف صاحب کا تعارف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ :

“افتخار عارف کی شخصیت کے بارے میں تو بے شک ایک بلکہ ایک سے کئی زیادہ آرا پائی جاتی ہیں لیکن ان کے شعری ہنر کی بابت ایک ہی رائے ہمارے سامنے آتی ہے، اور وہ یہ کہ اقلیم حرف و سخن میں بھی ان کا سفر ویسا ہی شادکام و منزل شناس رہا ہے جیسا کہ زندگی کے ہفت خواں میں۔

افتخار عارف صاحب کی شاعری میں جہاں ایک طرف تصوف اور فلسفے کا رنگ ہے وہیں دوسری ہجر و فراق کی بھی خوب بہتات ہے،

 وہ اپنے نہایت ہی نادر اسلوب سخن سے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں،

 افتخار عارف کے بعض اشعار تو اپنے رنگ کے واحد اشعار ہیں جن میں سرِ فہرست

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں کہ جو واجب بھی نہیں تھے

راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا

اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر

سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا

یہ کچھ وہ نمونے ہیں جن سے افتخار عارف صاحب کی میدان شاعری میں قد آوری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،

افتخار عارف اپنی غزلوں میں اکثر و بیشتر رثائی ادب سے بھی استفادہ کرتے نظر آتے ہیں، اول مرحلہ میں جب افتخار عارف نے اس تجربے کی پہلی غزل “وہی دشت ہے، وہی پیاس ہے” کہی تو معاصِر احباب شعرا نے واویلا شروع کر دیا کہ “دیکھو یہ لکھنؤ سے آیا ہے اور اسے یہ بھی خبر نہیں کہ غزل اور مرثیے میں کیا فرق ہے؟” افتخار عارف اس عمل پر افسردہ خاطر ہوئے تو ان کے پیر و مرشد سلیم احمد نے کہا “تم دلبرداشتہ کیوں ہوتے ہو، وہ بھی ایسے شاعروں کی باتوں سے جو اپنی لولی لنگڑی محبوباؤں پر شعر لکھ کر اتراتے پھرتے ہیں، تمہیں تو فخر ہونا چاہیے کہ تمہارا تصورِ محبوب اعلی و ارفع ہے”

ان کی شاعری میں جہاں ایک طرف الفت رسول ہے تو دوسری جانب حب آل رسول بھی بکثرت موجود ہے

وہ کربلا و دمشق کے واقعات اور امام حسینؑ کے ہمراہ رونما ہونے والے حادثات سے زمانے کو تشبیہ بھی دیتے پائے جاتے ہیں ۔۔

اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں

دل الجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں

عہد آسودگی جاں ہو کہ دور ادبار

اسی رحمت کے خزینے کی طرف دیکھتے ہیں

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا

جو دل میں ہے اب اس کا تذکرہ کرنا پڑے گا

نتیجہ کربلا سے مختلف ہو یا وہی ہو

مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن

راتوں رات چلا جائے جس جس کو جانا ہے

سپاہِ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر

کس اہتمام سے پروردگار شب نکلا

نواسے کی پیدائش پر موصوف کے کہے گئے تین مصرعے ان کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں

اچانک کیسے روشن ہو گئی رات میری

محمد کے نواسے کی غلامی کے تصدق

مرے معبود نے آگے بڑھا دی بات میری

افتخار عارف اپنے ہنرِ سخن گویائی سے عام سے عام موضوع کو بہترین لب و لہجہ کے قالب میں ڈھال کر ایک اہم موضوع بنانے کی سکت رکھتے ہیں،

ان کی شاعری میں جہاں ایک طرف موجودہ مسائل کا ذکر ہے تو دوسری جانب رمزیہ داستانیں اور رجزیہ خوانی بھی ہے، ایک سمت دشت، پیاس، کوفہ، قافلہ، لشکر، خنجر، تیغ مقتل ہے تو دوسری اُور عصر حاضر کے سیاسی المیے بھی ہیں

ان کے لہجے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کا اپنا منفرد اور پر اعتماد لہجہ ہے الغرض ان کی شاعری اپنے فکری نظام اور فنی اہتمام کے باعث علیحدہ شناخت رکھتی ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here