دنیا کی وہ عظیم تحریکیں جنہوں نے انسانی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں ان میں سے ایک اہم ترین علی گڑھ تحریک ہے۔ اس تحریک کے سالار اور روح رواں اگرچہ سر سید احمد خاں تھے جن کی بے مثال شخصیت سے ہی اس تحریک کا چشمہ پھوٹا تھا،لیکن اس تحریک کو آگے بڑھانے اور اس کو کامیابی و کامرانی کی منزل تک لے جانے میں سر سید کے رفقاء کا بھی کچھ کم ہاتھ نہیں ہے۔
یقینا ہر تحریک کچھ ایسے لوگوں اور اشخاص سے عبارت ہوتی ہے جن کے نام تو مشہور نہیں ہوتے لیکن ان کی کاوشیں ہر بابصیرت پر واضح ہو جاتی ہیں۔ ایسے افراد کا نام یاد نہ رکھنا یا ان کی محنتوں اور قربانیوں کو فراموش کر دینا ان کے ساتھ ناانصافی یا کم از کم ان کی حق تلفی ضرور کہلائےگا۔
سر سید کی یہ تحریک بھی ان کے رفقاء کے بغیر ادھوری اور نامکمل تھی،یا یوں کہا جائے کہ سر سید کا خواب شاید ان رفقاء کے بغیر اُس طرح شرمندہءِ تعبیر نہ ہو پاتا جس طرح سر سید نے چاہا تھا۔ اسے خدا کی نعمت ہی سمجھئے کہ سر سید کو ایسے رفقاء اور علی گڑھ تحریک کو ایسے کارکنان نصیب ہو گئے جنہوں نے اس تحریک کو کامیاب بنانے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کر دیں۔ اکبر کے دربار میں اگر نو رتن تھے تو علی گڑھ تحریک کے یہ وہ رتن ہیں جنہیں رفقاء سر سید کہا جاتا ہے۔
ان رفقاء میں سر فہرست نواب محسن الملک کا نام ہے۔ محسن الملک کو سر سید کا دستِ راست کہا جاتا ہے۔ انہوں نے قدم قدم پر سر سید کا ساتھ دیا اور اپنے مضامین و قلم کے ذریعہ سر سید کے افکار و خیالات کو پھیلایا۔ ان کا اصل نام سید مہدی علی تھا۔ محسن الملک ایک بہترین مقالہ نگار،قانون کی اچھی سمجھ رکھنے والے اور ماہر سیاست تھے۔ سر سید خود بھی ان سے متاثر رہتے تھے اور ان کے اچھے مشوروں کی تعریف کرتے تھے۔ کچھ قلم کاروں نے انہیں سر سید کا محب اور محبوب بتایا ہے۔ وہ سر سید کے انتقال کے بعد ایم اے او کالج کے سکریٹری مقرر ہوئے۔انہوں نے کالج کی ترقی اور ہندوستانی مسلمانوں کی خستہ حالی کو دور کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ ۱۹۰۷ میں ان کا انتقال ہوا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد میں سر سید کے پہلو میں انہیں دفن کیا گیا۔
رفقاء سر سید میں نواب وقار الملک کا نام بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وقار الملک کا اصل نام مشتاق حسین تھا اور ان کی پیدائش ضلع میرٹھ میں ہوئی تھی۔ جواں عمری میں جب علی گڑھ منتقل ہوئے تو یہیں ان کی ملاقات سر سید سے ہوئی اور ملاقات کے بعد جب انہوں نے سر سید کی فکر کا مشاہدہ کیا اور قوم کے لئے ان کی کوششوں کو دیکھا تو وہ سر سید کے عاشق ہو گئے۔ انہوں نے علی گڑھ تحریک کو زندہ رکھنے اور اسے کامیاب کرنے میں ہر طرح تعاون کیا۔ وہ سائنٹفک سوسائٹی کے ایک اہم رکن رہے۔ مدرسۃ العلوم اور ایم اے او کالج کے قیام کے لئے انہوں نے جگہ جگہ گھوم کر چندہ اکٹھا کیا۔ کالج کے قیام کے بعد وہ بورڈنگ ہاؤس کے منتظم بنے اور کالج کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ محسن الملک کے انتقال کے بعد وہ متفقہ طور پر کالج کے اعزازی سکریٹری منتخب ہوئے۔ ۱۹۱۲ میں سخت بیمار ہو جانے کی وجہ سے امروہہ چلے گئے اور ۱۹۱۷ میں اس دنیا سے کو الوداع کہہ گئے۔
سر سید کے رفقاء میں ایک اور اہم نام ڈپٹی نذیر احمد کا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے نام سے اردو ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ بخوبی واقف ہیں۔ وہ اگرچہ سر سید کے حلقہ احباب میں بعد میں آئے لیکن جلد ہی علی گڑھ تحریک کے زبردست حامی بن گئے۔ انہوں نے اپنی تقریروں اور خطبات سے قوم کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔ نذیر احمد نے ناول نگاری کے فن میں بڑا نام پیدا کیا،یہاں تک کہ کئی اردو ادب کے ماہرین نے انہیں اردو زبان کا پہلا ناول نگار قرار دیا ہے۔ مراءۃ العروس اور توبۃ النصوح ان کے مشہور ناول ہیں۔ انہوں نے اپنے زبان و بیان کے ساتھ اپنی تحریروں کے ذریعہ بھی عوام کو علی گڑھ تحریک کی طرف راغب کیا اور جدید تعلیم کے حصول پر لوگوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ ۱۹۱۲ میں اس دنیا کو خیرآباد کہا۔
سر سید کے رفقاء کے ذکر میں الطاف حسین حالی کا نام شامل نہ کرنا ایک بڑا ظلم ہوگا۔ حالی کا شمار اردو ادب کی ان نامور ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو زبان کی مختلف جہات مثلاً سوانح نگاری،مضمون نویسی،تنقید اور شاعری سبھی پر گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ انہوں نے مرزا غالب اور نواب مصطفی خاں شیفتہ جیسے عظیم شاعروں کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ حالی پہلی ملاقات ہی میں سر سید کی فکر سے متاثر اور ان کے دل دادہ ہو گئے تھے۔ سر سید کی ملاقات نے ان کی سوچ اور شاعری دونوں کو بہت حد تک تبدیل کر دیا۔ حالی غزل کے شاعر تھے لیکن علی گڑھ تحریک سے وابستہ ہو کر انہوں نے غزل کے روایتی انداز کو چھوڑ کر اصلاحی اور انقلابی انداز اختیار کر لیا۔ انہوں نے قوم کو بیدار کرنے کے لئے نظم گوئی شروع کی اور محبوب کے لب و رخسار کے ذکر اور اس کی زلفوں کے دام سے آزاد ہو گئے۔ حالی کی مشہور کتابوں میں حیات سعدی،مقدمہ شعر و شاعری، یادگار غالب، حیات جاوید اور دیوان حالی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ حالی نے ۱۹۱۴ میں انتقال فرمایا۔
رفقاء سر سید اور علی گڑھ تحریک کے نمایاں افراد میں ایک علامہ شبلی نعمانی بھی ہیں۔ شبلی ایک مایہ ناز عالم،زبردست ادیب،عمدہ شاعر اور بہترین سوانح نگار تھے۔ ضلع اعظم گڑھ میں ان کی پیدائش ہوئی۔ وہ بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے لیکن ان صلاحیتوں کا اظہار حقیقت میں سر سید کی صحبت اور علی گڑھ کے علمی ماحول میں آ کر ہی ہوا۔ وہ ایک استاذ کی حیثیت سے علی گڑھ میں داخل ہوئے اور ایک لمبے وقت تک کالج کے طلبہ کو اپنے علم سے مستفیض کیا۔ ان کی عمر سر سید سے تقریبا چالیس سال کم تھی لیکن اس کے باوجود بھی دونوں ایک دوسرے کے قدردان تھے۔ شبلی کا شمار اردو ادب کے بڑے مصنفین میں ہوتا ہے،یہاں تک کہ کچھ دانشوروں نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ اردو ادب کو سر سید کے بعد اگر کسی شخص نے سب سے زیادہ متاثر کیا تو وہ علامہ شبلی نعمانی ہی ہیں۔ ان کی کتابوں میں الفاروق،الغزالی،المامون،شعر العجم،موازنہ انیس و دبیر اور سیرۃ النبی مشہور و معروف ہیں۔ شبلی کا انتقال ۱۹۱۴ میں ہوا اور انہیں ان کے قائم کردہ ادارے دار المصنفین میں دفن کیا گیا۔
سر سید کے رفقاء میں ایک اہم نام ایسا بھی ہے جس کے نام اور قربانیوں سے لوگ صحیح طرح واقف نہ ہو سکے۔ وہ نام ہے سید زین العابدین کا۔ مولوی سید زین العابدین سر سید کے ایسے چاہنے والے تھے جنھوں نے اپنا سب کچھ سرسید اور علی گڑھ تحریک کے لئے قربان کردیا۔ انھوں نے نہ صرف علی گڑھ اور سرسید کو چاہا بلکہ ان کی تحریک اور مشن کو آگے بڑھانے کے لئے وہ کارہاے نمایاں انجام دئے جن کی مثال مشکل سے ہی مل سکتی ہے۔ ۱۹۰۵ میں زین العابدین کی وفات ہوئی اور جس طرح وہ زندگی میں سر سید کے ساتھ تھے،اپنی وفات کے بعد بھی انہی کے پہلو میں دفن ہوئے۔
ان کے علاوہ مولوی سمیع اللہ خاں،مولوی ذکاء اللہ،مولوی چراغ علی،سید زین العابدین اور راجہ جے کشن داس بھی سر سید کے ان رفقاء میں شامل ہیں جنہوں نے علی گڑھ تحریک اور سید کے عظیم مشن کو پورا کرنے کے لئے کیا کچھ نہ کیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حقیقت میں ان رفقاء سر سید کی لازوال کوششیں، کشادہ قلبی اور حوصلہ مندی کا نام ہی علی گڑھ تحریک ہے۔