ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی تازہ ترین کتاب “نئے نقاد کے نام خطوط” کے پیش لفظ اور پہلے خط کا جائزہ

ڈاکٹر ناصر عباس نیر مشہور نقاد، افسانہ نگار اور اردو ادب کے استاد ہیں- ان کی مشہور تصانیف میں جدیدیت سے پس جدیدیت تک، جدید اور ما بعد جدید تنقید، مابعد نوآبادیات اردو کے تناظر میں، اردو ادب کی تشکیلِ جدید، فرشتہ نہیں آیا، نظم کیسے پڑھیں، راکھ سے لکھی گئی کتاب اور یہ قصہ کیا ہے معنی کا شامل ہیں- ان کی چند روز قبل شائع ہونے والی کتاب، ” نئے نقاد کے نام خطوط” ہے- اس کتاب میں انہوں نے ادبی تنقید کو بہت آسان فہم اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے- خطوط کی صورت، نئے نقاد سے کلام کرتے ہوئے مصنف نے روایتی انداز سے ہٹ کر ادب، ادبی تنقید اور نئے نقاد کی ذمہ داریوں سمیت کئی موضوعات کو واضح کیا ہے- اس کتاب کے پیش لفظ اور پہلے خط کا خاکہ پیش خدمت ہے-

کسی بھی کتاب کو لکھنے کی ایک کہانی ہوتی ہے اور وہ عام کہانیوں کی طرح کسی عام،اتفاقی اور چھوٹی سی بات سے شروع ہوتی ہے- یہ کتاب بھی کہانی کی مختلف صورتوں پر مشتمل ہے لیکن انداز ذرا مختلف ہے- طنز و تضحیک اور تنقیدی اختلاف و استفسار میں فرق کو بیان کرنے کے مقصد سے لکھی گئی یہ کتاب تنقید کے بنیادی کردار کو واضح کرتی ہے- طنز و تضحیک ایک قسم کا لسانی تشدد ہے جو دوسروں کو خاموش اور پسپا کرنے کے لیے دانستہ اختیار کیا جاتا ہے، جب کہ اختلاف و استفسار کسی نکتے پر گفتگو میں شرکت کی شائستہ اسلوب میں دعوت ہے- ناصر عباس نیر لکھتے ہیں، “کسی بھی مصنف کی تحریروں کو جانچنے کا ایک سادہ سا پیمانہ یہ ہے کہ کیا وہ ہمیں اپنی تخیلی یا علمی دنیا میں فعال شرکت پر آمادہ کر رہا ہے، اور پھر اس شرکت کی وساطت سے ہمیں ہماری حقیقی نفسی اور سماجی دنیا کو نئے سرے سے، یا کسی پرانے، آزمودہ طریقے مگر تازہ پیرائے میں کھوجنے کے قابل بنا رہا ہے، یا وہ ہمیں ایک جذباتی شدت میں مبتلا کر کے ہمارے ذاتی فہم کو معطل کر کے، ہمیں اپنا معمول بنا کر، ہمیں کسی کے حق یا مخالفت کی راہ پر ڈال رہا ہے-“

مصنف ایک جگہ لکھتے ہیں، “ادب کا خاموشی سے پڑھا جانا اور گاہے گاہے اس پر سرسری تاثر، خود ادب اور ہمارے حق میں نہیں- ادب اور آرٹ جس نئی تخیلی دنیا کو خلق کرتے ہیں، اسے اول خود سپردگی اور یکجائی کے گہرے احساسات کے ساتھ محسوس کیا جانا چاہیے، مگر پھر اسی دنیا سے ذرا فاصلہ اختیار کر کے، اس پر گہری نظر ڈال کر، اس پر تفصیل سے لکھا جانا چاہیے، تاکہ یہ دنیا، اپنے تمام تر، چھوٹے بڑے، حسین و قبیح، معمولی و غیر معمولی امکانات و مضمرات کے ساتھ سامنے آ سکے-“

کتاب میں شامل پہلا خط پڑھنے سے پہلے میری نظر اس مصورانہ خاکے پر پڑی ہے جو اس خط کے تصور کے عین مطابق محسوس ہو رہا تھا- یہ خاکہ ایک تنہا کشتی کا ہے جو بیچ تالاب کھڑی ہے، جب کہ ایک طرف موجود درختوں کے جھنڈ کا سایہ اس تالاب پر یوں پڑ رہا ہے جیسے وہ کشتی کو اپنے حصار میں لینا چاہتے ہوں- ایک لمحے کو یہاں ٹھہرئیے اور ذرا سوچیے کہ کشتی کس شے کی علامت ہے؟ کیا یہ فقط نقل و حمل کا ایک ذریعہ ہے یا اس کے کچھ پوشیدہ معنی بھی ہیں؟ کشتی دراصل آزادی اور نئے جہانوں کی کھوج کا استعارہ بھی ہے، یہ کشتی دنیاوی روایتوں سے ہٹ کر تنہائی کی علامت بھی ہے، یہ روحانی اشارہ بھی سمجھا جاتا ہے؛ روح کا سفر یا ایک دنیا سے دوسری دنیا کی جانب سفر- کشتی لوگوں کے باہمی تعلق اور ایک دوسرے پر انحصار کی علامت بھی ہوتی ہے- یہاں سے چل کر اب پہلے خط کو پڑھیں تو اولین تاثر یہ قائم ہوتا ہے کہ مصنف نئے لکھنے والوں، خصوصاََ نئے نقاد کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور انھیں ان خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں جن سے ادب کو، کسی فن پارے یا کسی بھی متن کو اک نئے اور مختلف زاویے سے دیکھنے کی جستجو کرنے والے کو واسطہ پڑتا ہے- لہروں کے ساتھ ساتھ چلنے والے ملاح بہت ہوتے ہیں مگر لہروں کے مخالف چپوؤں کو لانے والوں کا حوصلہ اور ہمت قابل دید ہوتا ہے، اسی طرح لکھنے اور پڑھنے والوں کا روایتی انداز جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے، لیکن گہرا تفکر اور کتابوں سے ہم کلام ہونے والے نایاب ہوتے چلے جا رہے ہیں- یہ خط بھی ادب کے بحر بیکراں میں کسی کشتی کی مانند آزادانہ کھوج اور اس بحر کے تمام کناروں سے مختلف سیپ چننے پر آمادہ کرتا ہے-

علم کا ماخذ کئی چیزیں ہیں لیکن ان میں سے دو اہم ترین چیزیں کتاب سے کلام اور خود سے کلام ہیں- اسے تفکر کی دو اقسام کہا جا سکتا ہے- مصنف کے نزدیک تفکر کی یہ اقسام کسی خاص عمر کی محتاج نہیں ہیں، سو یہ ممکن ہے کہ کچھ نوجوانی میں ہی اس تفکر کے حامل ہو جائیں اور بعض بڑھاپے تک اس سے نا آشنا رہیں- چونکہ ایک ماہر نقاد آزادانہ چاروں زاویوں سے کسی متن کو جانچتا ہے، وہ کسی بھی فن پارے کے نیوکلئیس تک پہنچتا ہے، پھر مکمل طور پہ اس سے نکل کر اس طرح متون کا محاسبہ کرتا ہے کہ اک اک سطر اور ہر سطر کا اک اک لفظ اس کے سامنے سرنگوں ہو کر نہ صرف اپنا مفہوم بلکہ اس کے پیچھے چھپے انداز اور لہجے کو بھی ظاہر کر دیتا ہے- یہی شے روایتی فنکاروں کو ناپسند ہے،اسی بنا پر کسی بھی نقاد کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی اور اس کے فن کو ردی فن یا دوسرے تیسرے درجے کا فن کہہ کر اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے- مصنف پڑھنے والے کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر یہ سب ہم جیسے انسان ہی تو کہتے ہیں، سو گھبرائیں مت، بلکہ ان کے اسباب کو کھوجیں اور ان پہ لکھیں-

نقاد کی چند اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں، جن میں سوچنا، متن سے کلام کرنا، سوال اٹھانا اور پھر ایسی جرآت سے لکھنا کہ جس میں دلیل بھی ہو اور شائستگی بھی، کیونکہ بہت سے لوگوں کے پاس دلیل ہو تو شائستگی نہیں ہوتی اور شائستگی ہو تو دلیل سے محروم ہوتے ہیں- کوئی بھی ایسا شخص جو کسی کی ذلت میں خوشی محسوس کرے اس سے دور ہو جانا ضروری ہے چاہے اس کے پاس دلائل کا کتنا ہی ذخیرہ کیوں نہ ہو اور بیان کا وہ کیسا ہی شاہ سوار کیوں نہ ہو- شاعری، مصوری، فکشن،تحقیق کی طرح تنقید بھی بہت اہم ہے اور کوئی بھی ایسی سرگرمی اول یا دوسرے درجے کی نہیں ہوتی، بلکہ ایک تخلیقی عمل ہی کسی سرگرمی کو افضل یا اسفل بناتا ہے- چونکہ آج کل سوشل میڈیا نے ہر ایک کو زبان عطا کر دی ہے اور وہ زبانیں ایسی کمان بن چکی ہیں جن سے الفاظ کے تیر نکل نکل کر لوگوں کو زخمی کر رہے ہیں- کوئی بھی نقاد ان تیروں سے نہیں بچ پاتا مگر ایک ماہر اور اصل نقاد کی یہی پہچان ہے کہ وہ ضبط سے کام لے، مکالمے کو فروغ دے اور اپنی تنہائی کوپرامن بنائے-

ایک نقاد کو سوال کا جواب دینے سے پہلے سوال کی پہچان ہونا لازم ہے- سوال کی زبان اور منطق پر غور کرنے سے ہی ایک نقاد اس سوال میں چھپی دشمنی، نفرت اور تعصب کو پہچان سکتا ہے- لہذا مصنف نصیحت کرتے ہیں کہ ہر سوال کا جواب دیا جائے لیکن ان سوالوں کو پہچان کر، کتاب اور خود سے کلام ہی سوال کو پہچاننا سکھا سکتا ہے- مصنف نے یہاں سوال کی پہچان کے لیے بودھی مفکروں کا حوالہ دیا ہے- یعنی سوال وہی قابل جواب ہیں جن میں حقیقت جاننے کا تجسس موجود ہوتا ہے- پھر نئے نقاد کو مغربی نقادوں سے استفادہ کرنے پر ملامت بھی کی جاتی ہے- کہنے والے انہیں طعنہ دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسے نقاد کیوں پیدا نہ ہوئے؟ مصنف یہاں نئے لکھنے والوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ان میں تنقیدی آگہی ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے مغرب، مشرق،افریقا، لاطینی امریکہ سمیت کسی بھی علاقے کے نقادوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے, اس سلسلے میں نظریات کو چاروں اطراف سے سمجھنا سیکھنا ہو گا- علم ہمیشہ سرحدوں سے ماورا رہا ہے- لہذا نئے لکھنے والوں کو اپنے کام پر دھیان دینا ضروری ہے- اور اہم ترین بات یہ ہے کہ استعمار کی مذمت کی جائے چاہے وہ مغربی ہو یا مشرقی،بیرونی ہو یا مقامی،معاشی ہو یا ثقافتی یا پھر نفسیاتی، لیکن علم کہیں کا بھی ہو اسے نسل، مذہب اور فرقے کی نظر سے کبھی نہ دیکھیں بلکہ اسے اپنی گمشدہ میراث سمجھنا چاہیے-

یہ خط ایک نقاد اور لکھنے والے کو پیش آنے والی مشکلات، اس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات، اس کی حوصلہ شکنی کرنے والے عناصر کی نشاندھی کرنے کے ساتھ ساتھ اسے خود کی پہچان، آزادانہ سوچنے اور سوال اٹھانے کی جرآت کرنے اور کسی سوال کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بارے احسن انداز میں کلام کرتا ہے- مزید اس خط میں زندہ رہنے والی تحریروں کے زمرے میں بطور حوالہ کئی شاندار کتابوں کی بھی نشاندھی کی گئی ہے جن کو پڑھ کر ایک نقاد اپنے فن اور اپنی ادبی شناخت کو مدلل اور منطقی انداز میں پیش کرنے کے قابل ہو سکتا ہے- ان کتابوں میں گل گامش، ہومر کی اوڈیسی، برادرز کرامازوف، ٹی ایس ایلیٹ کی دی ویسٹ لینڈ، غالب کا دیوان، اقبال کا جاوید نامہ، مولانا روم کی مثنوی معنی سمیت دیگر اہم ترین تصنیفات شامل ہیں جنہوں نے ہر زمانے میں معاشرے اور انسانی نفسیات پر گہرا اثر چھوڑا- پہلے خط سے ہی مصنف کے گہرے مطالعے اور مشاہدے کی خوشبو پوری کتاب کو معطر کرتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے- اس خط سے ایک اور اہم چیز یہ دکھائی دیتی ہے کہ کتاب کا بنیادی موضوع تنقید ہونے کے باوجود ایک عام قاری کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہے اور مصنف کا انداز تحریر، لفظوں کا چناؤ اور جملوں کی بنت کسی بھی لسانی تشدد اور تعصب سے ماورا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here