نوید صبح

نسیمِ سحر کے پر کیف جھونکے ہمیں یہ ادراک کراتے ہیں کہ صبح کی تروتازہ اور خوشگوار فضا ہمارے لیے فقط باعثِ رحمت و برکت ہی نہیں بلکہ کشائش رزق، آسودگی اور اطمینانِ قلب کا سبب بھی ہے. جب کائنات کی تمام مخلوق اپنے خالق سے محو تکلم ہوتی ہے، پورے جہاں کا ذرہ ذرہ خدا کی حمدوثنا میں سرشار نظر آتا ہے.

جو لوگ اس دل پذیر سماں کا اپنی دل کی آنکھوں سے معائنہ کرتے ہیں خوش بختی سے وہ اس سحر انگیز قدرتی حسن میں مسحور رہتے ہیں، جبکہ بد قسمتی سے کچھ لوگ اس سعادتِ عظمیٰ سے محروم اپنے آشیانۂ استراحت پر نیند کے خمار میں مخمور رہتے ہیں۔ کیونکہ اس ملکوتی وقت میں بیدار مغز ہی بیدار ہوتے ہیں.

بلاشبہ یہ آمد فجر، صبحِ نو، پرندوں کی پرواز، روزی کی تلاش اور پھر طلوعِ آفتاب کے ساتھ ایک نئے دن کا آغاز یہ سب ایک نظام کے تحت ہے اور اسمیں کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ یہ اس قدرت کا اصول ہے جس میں تغیر و تبدل کی کوئ گنجائش نہیں ہوتی، جس کے آگے ہر سر خم ہے کسی کی جرأت نہیں کہ وہ لحظہ بھر کیلیے اصول شکنی کا ارادہ بھی کرے. لیکن غوروفکر کی بات یہ ہیکہ کیا ہم اس نئ صبح اور اس افتتاحی دن کا حصہ بنتے ہیں؟؟ کیا ہم اللہ کے عنایت کردہ ایک اور نئے دن کا گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں؟؟ نہیں ،،،،،، ہر گز ہم ایسا نہیں کرتے.

ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہیکہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کیلیے دعا فرمائی کہ “اے اللہ میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصے میں برکت عطا فرما.” اسلیے کہ یہ آغاز کار کا وقت ہوتا ہے ایک نئے دن کی زندگی کا پیش لفظ ہوتا ہے. اور اس بابرکت وقت میں جو بھی کام کیے جاتے ہیں ان میں جا بجا برکت ہی برکت ہوتی ہے. جو علی الصبح تلاش معاش میں نکلتے ہیں انکا رزق بڑھتا ہے، جو پڑھتے ہیں ان کا علم بڑھتا ہے اور جو سوتے رہتے ہیں ان کی نیند بڑھ جاتی ہے. پھر وہ اپنے فرائض سے بالکل آزاد و بے خبر نیند کی چادر میں روپوش رہتے ہیں، جنکی سماعتوں سے کانوں میں رس گھولتی اذانیں بھی نہیں ٹکراتی ہیں، جبکہ نمازِ فجر کا مقام شرف یابی بلند تر ہے.

علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کہا تھا کہ…………..

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز

نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود

ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

یعنی وہ صبح جسکو ہم کبھی آج کی صبح قرار دیتے ہیں،تو کبھی کل کی صبح کا نام دیتے ہیں، یہ دستور کی صبحیں نہ جانے کہاں سے بر آمد ہوتی ہیں۔ لیکن اسکے بالمقابل وہ سحر جسمیں دنیا کی تمام تر خواب گاہیں کانپ اٹھتی ہیں. اور عالم رنگ و بو کا چپہ چپہ لرزہ براندام ہو جاتا ہے وہ ایمان وحکمت سے لبریز مومن بندے کی اذاں سے پیدا ہوتی ہے۔ اسلیے کہ اسکی پر جوش آواز اللہ اکبر میں وہخاص تأثیر ہے جس سے عرش و فرش جھوم اٹھتے ہیں جیسا کہ سرزمینِ اندلس میں مورخہ ٧ جولائی ٧١١ء کو جب طلوعِ آفتاب سے قبل مسلمانوں نے فجر کی اذان دی اور جنگ سے پیشتر اپنے سپہ سالار طارق بن زیاد کی امامت میں نماز ادا کی تو وہ سحر پیدا ہوئ جس سے سر زمینِ اندلس لرز اٹھی.

آج ہمیں ایسے ہی بہت سی اسحار طلوع کرنے کی ضرورت ہے جو پوری کائنات کو ہلا کر رکھ دیں، کیونکہ آنے والی متعدد صبحیں ہم سے چیخ چیخ کر یہ تقاضا کر رہی ہیں کہ اے مسلمانو!!!! جاگو اور اٹھ کھڑے ہو اور ہمیں گونجتی اذانوں ، باجماعت نمازوں، قرآن کے سپاروں اور اپنے نیک اعمال سے اجاگر کردو کہ حقیقی اور روشن صبح تو وہی ہے، جسمیں انسان اپنی خواہشات پر رب کے حضور حاضری دینے کو ترجیح دے ۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے {أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّليْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا*

“نماز قائم کرو زوال آفتاب سے لیکر اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو یقیناً فجر کا قرآن پڑھنا مشہود ہے”

آیت کریمہ میں نمازوں کی پابندی کرنے کرنے کے ساتھ ہی نمازِ فجر میں قرآن کریم کی طویل تلاوت کا حکم دیا گیا ہے اسلیے اسے “قرآن الفجر” کہا گیا ہے اور لفظ ” مشہودا” کے معنی ہیں حاضر ہونا. چونکہ صبح کے وقت رات اور دن دونوں وقت کے فرشتوں کی حاضری کا وقت ہوتا ہے اسلیےاسکو “مشہودا” کہا گیا ہے۔

لہٰذا اس متبرک موقع پر نماز کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت کا معمول ہمارے دل کو مطمئن اور دن کو محفوظ بناتا ہے۔ اسلیے ہیمں چاہیے کہ ایک کامیاب انسان بننے کیلیے ہم اپنے دن کے ابتدائی حصے کو بھی کامیاب بنائیں نیز اللہ کے عطا کردہ ان روح افزا صباح و مساء کے ذریں لمحات سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ہی {فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ کا پیکر بن جائیں.

اللہ ربّ العزت ہمیں فجر کے انمول خزانے اور صبح کی خیر و برکتیں اخذ کرنے کی توفیق سے نوازے آمین یا رب العالمین ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here