ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب اللہ رب العزت کےمبعوث کردہ نبیوں میں آخری نبی ہیں۔حضرت آ علیہ السلام سے لیکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے نبیوں کو اللہ نے مبعوث فرمایا ان سب کی بعثت کا ایک ہی مقصد کہ ; لا إله الله؛ اے لوگو! ایک اللہ کی عبادت کرو اور یہ گواہی دو، اللہ کے سوا کوئ معبود نہی۔ وہی مالک حقیقی ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
متعدد روایات کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم كا بازار ذو المجاز میں یہ اعلان کرنا، ( ياايها الناس قولو لا اله الله تفلحو) اس بات كي گواہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بعثت کے مقصد کو پورا کیا۔ اور خدا کی حجت تمام فرمادیں اور دین اسلام کو مکمل کر دیا تو اللہ کے وعدہ محکم ( كل نفس ذائقة الموت) كے پورا ہونے کا وقت بہی آگیا۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام پر نظر ڈالتے ہیں۔
الوداعی آثار: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد پورا ہوگیا تو آپ کے احوال،کردار،رفتار اور گفتار سے ایسی علامتیں ظاہر ہونا شروع ہوگئیں جس سے یہ ظاھر ہونے لگا کہ اب آپ اس جہان فانی کو الوداع کہنے والے ہیں۔مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتےتھے، لیکن ١٠ھ میں بیس کا اعتکاف فرمایا۔ ہر آپ کو جبرئیل امین بیک مرتبہ قرآن کا دورہ کرایا کرتے تھے جبکہ اس سال دو مرتبہ آپ نے دورہ فرمایا۔
آپ نے حجة الوداع کے خطبے میں ارشاد فرمایا ; شاید میں اسکے بعد اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں۔
٦٣٢ ء صفر کے شروع میں آپ دامن احد میں تشریف لے گئے اور شہداء کے لیے اس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں۔
علالت کی ابتدا: ٢٩ صفر ٦٣٢ ء بروز دو شنبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ پڑھانے کے لیے ;جنت البقیع؛ کے قبرستان تشریف لے گئے۔ واپسی میں راستے میں ہی درد شروع ہوگیا اور حرارت اتنی شدید ہوگئی کہ سر پر پٹی باندھنی پڑی، یہ مرض الموت کا آغاز تھا اور آپ نے اسی حالت مرض میں ١٣ یا ١٧ دن گزارے۔
حیات مبارکہ کا آخری ہفتہ: وفات سے ایک ہفتہ پہلے آپ بہت بے قرار تھے اور بار بار فرماتے تھے،میں کہاں رہوں۔ ازواج مطھرات آپ کی خواہش سمجھ گئیں اور سب نے اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں قیام فرمائیں، چنانچہ آنحضرت نے ام المؤمنین حضرت عائیشہ کے یہاں قیام فرمانا پسند فرمایا۔حضرت علی اور حضرت عباس نے سھارا دے کر آپ کو حضرت عائیشہ رض کے حجرے میں پہنچا دیا، جب تک طاقت رہی آپ خود ہی نمازیں پڑھاتے رہے، جب کمزوری بہت زیاداہ بڑہ گئ تو آپ کی جگہ حضرت ابو بکر نے امامت کا فریضہ انجام دیا، حضرت ابو بکر نے آپ کی علالت میں کل سترہ ١٧ وقت کی نمازیں پڑھائیں۔
ایک دن ظہرکے وقت مرض میں کچہ افاقہ ہوا تو آپ غسل فرماکر حضرت عباس اور حضرت علی کے سہارے مسجد میں تشریف لائے ظہر کی نماز پڑھائ۔اور بعد ظہر ایک خطبہ دیا جس میں بہت سی وصیتیں کیں اور احکام اسلامبیان فرمائے اور انصار کے حقوق و فضائل پر بھی روشنی ڈالی۔
حیات مبارکہ کا آخری دن: آپ کے مرض میں کمی بیشی ہوتی رہی، حیات مبارکہ کے آخری دن یعنی بروز دوشنبہ کو آپ کی طبیعت کچہ بہتر تھی۔ حجرہ مسجد نبوی سے متصل تہا آپ نے فجر کی نماز کے وقت پردہ اٹھاکر دیکھا صحابہ کرام صف باندھے نماز میں مصروف تھے،آپ نے تبسم فرمایا تو صحابہ سمجہے کہ آپ مسجد میں آنا چاھتے ہیں،خوشی کی وجہ سے صحابہ بے قابو ہوگئے مگر آپ نے اشارے سے روکا اور پردہ ڈال دیا۔
اس کے بعد آپ پر بار بار غشی کا دورہ پڑنے لگا اور آپ بار بار یہ الفاظ دہراتے۔
(بل الرفیق الاعلی) وفات سے تھوڑی دیر پھلے حضرت عائیشہ کے بھائی عبد الرحمن بن ابی بکر تازہ مسواک لیکر حاضر ہوے،آپ نے ان کی طرف نظر جما کر دیکھا تو حضرت عائیشہ سمجھ گئیں کہ مسواک کی خواہش ہے لہذا فورا مسواک لیکر اپنے دانتوں سے نرم کرکے آپ کو دےدی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک فرمائی۔
آپ کے قریب پانی رکھا ہوا تھا آپ اس میں ہاتھ ڈالتے پہر چہرہ مبارک مبارک پر ملتے اور فرماتے ( بل الرفیق الاعلی) یہی الفاظ زبان مبارک پر تھے کہ روح قدس اس عالم فانی سے عالم قدس میں پہنچ گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
وفات کا اثر: اس حادثہ کی خبر آگ کی طرح پورے مدینہ میں پھیل گئی۔ اہل مدینہ پر کوہ الم ٹوٹ پڑا، بڑے بڑے صحابہ کرام ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ مثلا حضرت عثمان پر ایسا سکتہ طاری ہوا کہ وہ ادھر ادھر بھاگتے پھرتے تھے۔
حضرت علی رنج و ملال کی وجہ سے نڈھال ہوکر ایک جگہ بیٹھ گئے،حضرت عمر رض کی حالت تو اتنی بگڑ گئی تھی کہ آپ ہاتھ میں تلوار لےکر یہ اعلان کرتے پھر رھے تھے کہ جو یہ کھے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا تو میں اسکی گردن اڑا دونگا۔
غسل،تکفین،نماز جنازہ اور تدفین: چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تھی کہ آپ کو اھل بیت ہی غسل دیں، لہذا وصیت کے مطابق حضرت عباس، فضل بن عباس اور حضرت علی نے آپ کو غسل دیا اور کفن مبارک دیا ۔
جنازہ ہوا تو لوگ نماز جنازہ کے لیے ٹوٹ پڑے۔پھلے مردوں نے پھر عورتوں نے بعد میں بچوں نے نماز جنازہ پڑھی، امام کوئی نہ تھا۔
نماز جنازہ کے بعد دفنانے کا مسئلہ آیا تو کچہ لوگوں نے راۓ دی کہ جنت البقیع میں دفن کیا جاۓ تو کچہ لوگوں نے یہیں دفن کرنے کا مشورہ دیا، لیکن حضرت ابو بکر صدیق رض نے فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ھے کہ نبی جہاں انتقال کرتا ہے اس کی قبر وہیں بنتی ھے چونکہ آپ کا انتقال حجرہ عائیشہ میں ہوا تھا اس لیے وہیں حضرت طلحہ رض نے قبر کھودی۔ اور وہیں آپ کے جسد اطہر کو دفن کیا گیا۔حضرت حسان بن ثابت رض نے آپ کی شان میں کیا خوب کہا ہے۔۔
وَأَحسَنُ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عَيني
وَأَجمَلُ مِنكَ لَم تَلِدِ النِساءُ
خُلِقتَ مُبَرَّءً مِن كُلِّ عَيبٍ
كَأَنَّكَ قَد خُلِقتَ كَما تَشاءُ (