نہ ریگ زاروں پہ کی توجہ، نہ منہ کو پھیرا چمن کی جانب
کہ ہم نے جب جب نظر اٹھائی تو دیکھا دار و رسن کی جانبہر ایک ظلمت کدے نے آخر ترے ستاروں سے روشنی لی
جسے بھی تاریکیوں نے گھیرا، بڑھا تری انجمن کی جانبمیں قربتوں کے کسی تقاضے سے بے خبر تو نہیں ہوں، لیکن
جو ان کے من سے فراغ پا لوں، تو دیکھوں ان کے بدن کے جانبقسم خدا کی یہ گل جو ہیں اپنی نازکی کی صفت پہ نازاں
یہ مارے حیرت کے سوکھ جائیں، جو دیکھیں ان کے دہن کی جانبغزل کے مولا ہمی ہیں کاظم، سو اس میں حیرت کی بات کیا ہے
کہ بلبلِ خوش نوا توجہ کرے ہمارے سخن کی جانب