کتاب: متحدہ اسلام کا منشور
مصنف: راشد شاز
صفحات: 80
ناشر: ملی پبلیکیشنز ,نئی, دلی.
متحدہ اسلام کا منشور ڈاکٹر راشد شاز صاحب کی ایک کتاب ہے، جسمیں انہوں نے ہمارے چودہ سو سالوں پر مشتمل فکری سفر کا بے لاگ محاسبہ کیا ہے۔ فاضل مصنف ہند و بیرون ہند کی ایک مشہور شخصیت ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ، ملک و بیرون ملک میں ہونے والے ملی سیمینار کے اہم خطیب کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی پیدائش بہار کے ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی آپ کے چچا محمد حسنین سید جماعت اسلامی کے بانیوں میں شامل تھے۔ سیاسی وابستگیوں کی بنا پر 1977ء میں ان کے خاندان کے تقریبا سب مردوں کو جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ بعد میں جب سیاسی دباؤ میں کمی ہوئی اور حالات بہتر ہوئے تو راشد شاز کو تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیج دیا گیا جہاں سے انہوں نے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ دورانِ تعلیم وہ رسالہ تجدید کے مدیر بھی رہے۔ پی ایچ ڈی کے بعد راشد شاز عربی اور اسلامی تعلیم کے لیے سوڈان چلے گئے ۔ 1994ء میں راشد شاز نے ملی ٹائمز انٹر نیشنل جاری کیا۔ ڈاکٹر شاز نے اردو میں تقریبا نہیں کتابیں تحریر کی ہیں۔
( آزاد دائرۃ المعارف )
آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ امت کی زبوں حالی کے اسباب جاننے میں صرف کیا، بالآخر زوال کا ادراک ادراک زوال امت ” کی شکل میں سامنے آیا ، مصنف کی کتابوں کا عموما یہی موضوع رہا ہے۔ متحدہ اسلام کا منشور اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے ناصرف سنیوں بلکہ شیعوں کو بھی اس کلمہ سواء کی طرف بلایا ہے جو انکے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ کیا حنفی کیا شافعی ، کیا سنیت کیا شیعیت کسی کوملحوظ خاطر نہ لا کر مسلمان محض ہونے کی دعوت دی ہے، مختلف خیموں میں بیٹھ کر اپنے مسلک کے مطابق اسلام کی الگ الگ تعبیرات کرنے والوں کو قرآنی دائرہ کار میں آنے کی دعوت دی ہے۔ لکھتے ہیں : “ہمارے عہد کے شیعہ سنی اسلام سے اپنی وابستگی کے باوجودا الگ الگ خانوں میں جیتے ہیں۔ انکاملی مفادا الگ، انکی کتابیں الگ ، انکے علماحتی کہ انکی مساجد بھی الگ الگ ہو گئی ہیں ۔ صرف شیعہ سنی پر ہی موقوف نہیں بلکہ مسلمانوں کے مختلف گروہ خواہ وہ اسمعیلی اور اباضی ہوں یا بعد کے عہد میں بننے والے سلفی جماعتی دیو بندی اور بریلوی مسالک کے حاملین ، ان سبھوں نے اپنی اپنی مساجد الگ کرلی ہیں۔ ذرا غور سے دیکھئے تو یہ حقیقت چھپائے نہیں چھپتی کہ مسجد میں ہوں یا مدرسے بظاہران پر دینداری کا کتناہی خوشنما ملمع کیوں نا چڑھا ہوا ہو انکے مناروں سے اللہ اکبر کی صدائیں کیوں نہ سنائی دیتی ہوں دراصل یہ تنگ نظری تعصب اور فرقہ بندی کے قلعے بن گئے ہیں جہاں خدائے واحد کی عبادت کے بجائے اپنے اپنے فرقوں اور مسلکوں کا علم بلند کیا جارہا ہے۔ بڑے قلق کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ در اصل توحید کے مراکز نہیں بلکہ شرک اور فرقہ پرستی کے اڈے ہیں جو عین مسلم معاشرے کے اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہیں”۔
مصنف کے مطابق ہمارے انتشار کی اصل وجہ مسلم حکمرانوں کا اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر دین کا سہارا لینا ہے۔ حکمرانوں نے اپنی کرسی کی خاطر دین کی مختلف تعبیرات کو رواج دیا اور آہستہ آہستہ عین دین بن گئے ۔ اور ہماری اذانوں اور نماز کے طریقے بدل کر رہ گئے۔ مصنف کے نزدیک اتحاد امت کی واحد سبیل صرف اور صرف قرآن ہے، یہی ایک ایسی چیز ہے جس پر تمام فرق (بالخصوص شیعہ اور سنی ) کا اتفاق ہے ۔
بلاشبہ یہ کتاب ہماری فکری گمراہی کے قلعے کو توڑنے کی قوت رکھتی ہے۔ یہ کتاب یقیناً کھلے دماغ سے پڑھنے والے کے لئے ایک نئی تبدیلی کا آغاز بن سکتی ہے، مصنف کا ماننا ہے کہ “اس کتاب کی اشاعت ہماری ہزار سالہ فکری تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ اگر اسے کھلے دل و دماغ سے پڑھا جائے تو عجب نہیں کہ یہ مختصر سا کتا بچہ ایک نئی تبدیلی کا نقطہ آغاز بن جائے۔