مسافر ہوں مگر منزل نہیں ہے
سفر اس واسطے مشکل نہیں ہے
مسلسل ٹھوکریں کھاتا رہا ہے
سو پتھر بن گیا ہے،دل نہیں ہے
محبت کی حسیں صورت یہ دنیا
کہیں نفرت کے بھی قابل نہیں ہے
یہ کشتی زندگی کو ڈھو رہی ہے
نظر کی حد تلک ساحل نہیں ہے
میں سورج کو مسلسل تک رہا ہوں
غزل کہنا مگر حاصل نہیں ہے