اس ڈاکٹر نے اُسے کہا۔۔۔ تم آنکھیں بند کرو۔۔۔۔ اور اس نے اس نیم پاگل شاعر کا پہلا بوسہ لیا ۔۔۔۔
تب اس کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اُسے کہا رکو۔۔۔۔۔
میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔ مجھے کچھ یاد آرہا ہے۔۔۔۔ اب اگلے دو بوسے میں لونگا، مگر تمہارے نہیں۔۔۔۔
اس گمشدہ کے جو مجھے پھر سے یاد آرہا ہے۔۔۔۔اور وہ کلینک سے باہر دوڑ گیا۔۔۔۔
جب وہ کلینک سے باہر نکلا تو اس کی یاداشت بہتر طور پہ کام کرتی ہوئی محسوس ہوئی اور اسے ان دو بوسوں کی شدید خواہش مزید تیز بھاگنے پر اکسانے لگی۔۔۔۔
وہ جلد از جلد اس باغ میں پہنچنا چاہتا تھا جو اس کی یاداشت میں اب بھی موجود تھا اور جہاں آخری مرتبہ اس نے اپنے محبوب سے ملاقات کی تھی….
وہ باغ کے قریب پہنچا تو اس نے سڑک کے کنارے ایک فقیر کی آواز سنی جو صدا لگا رہا تھا۔۔۔
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے۔۔۔۔۔
جیسے ہی اس نے یہ سنا اس کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔۔۔ اس کی آنکھیں پتھرا گئیں اور پہلا خیال اسے اس لڑکی کا آیا جسے بے گناہ ہونے کے باوجود مرد کی عزت نفس کی تسکین کی خاطر گنہگار قرار دے کر بھرے مجمع میں سنگسار کر دیا گیا تھا۔۔۔۔
نہ جانے کیوں یہ سوچ کر وہ زور سے ہنسا اور پھر چکرا کر زمین پر گر گیا-
اس کی آنکھ کھلی تو وہ پاگل خانے کی ایک تنگ کوٹھڑی میں تنہا لیٹا ہوا تھا اور باہر کوئی چلا رہا تھا۔۔۔۔میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔۔ میں پاگل نہیں ہوں۔۔
عبداللہ