مجھ سے تنہائی میں وحشت یوں جڑی رہتی ہے
جیسے دیوار سے تصویر لگی رہتی ہےہم فرشتہ ہی کہیں گے اسے انسان نہیں
آنکھ جس کی تری محفل میں جھکی رہتی ہےمیں تمہیں دل میں جگہ دے دوں مگر ایک سوال
کہیں شیشے کے قفس میں بھی پری رہتی ہےہم گناہوں کے تكدر میں دبے ایسے ہیں
جیسے ملبے میں کوئی لاش دبی رہتی ہےمیں نے اس شخص سے پوچھا تھا بتا دکھ کیا ہے
جس کے چہرے پہ مسلسل ہی ہنسی رہتی ہےاس کے ہونٹوں پہ مرا نام یوں جچتا ہے اریب
جیسے سگریٹ ترے لب پہ سجی رہتی ہے