مفلسی حسن کو بازار میں لے آتی ہے
میر جیسوں کو بھی دربار میں لے آتی ہےعشق باتوں میں تری ہم نہیں آنے والے
اک خطا خلد سے سنسار میں لے آتی ہےشاہ زادی ترے دیدار کی خواہش ہم کو
دفعتاً کھینچ کے یلغار میں لے آتی ہےمجھ کو کردار سے نفرت ہے کہانی سے نہیں
پر کہانی مجھے کردار میں لے آتی ہےتیرے ہاتھوں سے تراشے گئے ہم لوگ اریب
وجہ ہم کو یہی فی النار میں لے آتی ہے