بیس رمضان بمطابق ۳ مئی ۲۰۲۲ بروز پير جب راقم سحری تناول كرنے كے لیے بيدار هوااوراپنے معمول كے مطابق واٹس ايپ چيک كيا تو سب سے پہلےجس خبر پرنظر پڑی ،وہ تھی امت كے عروج وزوال كا ادراک ركھنے والے دردمند صحافی، بے نظير كتاب كے مصنف و مترجم،رجال ساز وآدم گر ماہر تعلیم ،وحيد الزماں كے وحيد العصر شاگرد ،سلطان الادباء حضرت مولانانورعالم خليل اميني استاذ دارالعلوم ديوبندو مدیراعلي ’’ الداعي‘‘کےعالم فانی سے عالم جاودانی كو سدھار جانے كي خبر ۔اس سوہان روح خبر كوپڑھ كر دل دھک سے ره گيا، زبان گنگ ہوگئی، آنكھيں ڈبڈبا گئیں ،كاسہ دل چور چور ہو گیا، ذہن و فكر پر غم و الم كی تاريکی سایہ فگن ہوگئی اور زندگی کی ساری چاشنی ايک لمحہ میں كرواہٹ میں تبديل ہوگئی، دل ميں يہ خيال پيدا ہواكہ ہوسكتاہے کہ يہ خبر جھوٹی ہو اور معلن نے سكتہ كي كيفت كو موت سمجھ لیا ہو؛ ليكن جب كافي دير تک تواتر كے ساتھ ان کی وفات كی خبر آتی رہی تو ہمیں يقين كرنا پڑا کہ مولانا ؒ علم وادب كي دنيا كو سوگوار، شاگردوں، عقيدت مندوں اور شہسواران قلم و قرطاس كو غمگين چھوڑ كر اپنےخالق حقيقی سے جاملے۔
آ!عندليب مل كے كريں آہ وزاریاں تو ہائے گل پكارميں چلاؤں ہائے دل
تھوڑی دير بعد جب غم والم کی يہ كيفيت قدرے زائل ہوئی اور اس كا دباؤ كم ہواتو دل و زبان سےان کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعا نكلنے لگی، جو اب تک جاری ہےاور ان شاء الله تادم حيات جاری رہے گا۔
مولانا ؒ كا نام پہلی مرتبہ اس وقت سنا؛ جب راقم 2010 ء كے آخر میں شمالی بہارکی عظیم دینی درسگاه جامعہ عربیہ اشرف العلوم كنهواں سيتامڑھی، بہار كے درجہ اعدادیہ ميں داخل ہوا۔ وہاں كے کئی اساتذه ان كے خاص خوشہ چينوں اور ان سے بھرپور استفاده كرنے والوں میں ںسے تھے ؛اوروه لوگ اكثر و بيشتر مولانا کی علمی گہرائی وگيرائی ،وسعت مطالعہ،شب وروز علمی انہماک،عربی زبان کی لازوال محبت سےسر شار ی ،ادبی لطافت و شيرينی، زبان کی شگفتگی، فصاحت بيانی، بلاغت شناسی، دور بينی، نكتہ سنجی ودقيقہ رسی، انداز بيان كی برجستگی و بے ساختگی، تفہیم کی سحر آفرينی، فيض رسانی کی تحير خيزی كے ساتھ ساتھ ،ہمہ رخیو ہمہ جہت شخصيت ،زود اثر پذير طبيعت ،حساس دل ،زرخيز دماغ ،بود و باش ،نشست و برخاست ،رفتار و گفتار ،اخلاق و اوصاف ،عادات و اطوار، لباس و پوشاک ،نفاست ذوق و نستعلقيت ، ناز ك مزاجی و وسيع الظرفی، نيک خوئی وپاک طينتی، خير جوئی و بہی خواہی، سحر طراز ادائےدلفريبی، اصول پسندی، وقت کی بے حد قدر دانی اور حاضر جوابی كے حوالےسےبھی مولانا ؒ كا ذكر كرتے رهتے تھے،نيز اپنے بارے ميں مولانا ؒ كی زبان مبارک سے نكلےہوئے تعريفی ،توثيقی اور تفريحی كلمات فرحت و انبساط سے لبريز ہوكر طلباء كے سامنےبيان كرتے ،خود بھی لطف اندوز ہوتے اور دوسروں كو بھی لطف اندوز كرتے،خود بھی ہنستےاور طلباء كو بھی ہنساتے تھے ۔ پھر جب عربی اول ميں ان کی كتاب مفتاح العربيہ اول ودوم پڑھنےكی سعادت حاصل ہوئی تو ان کی بے پناه ادبی مہارت و حذاقت اورعلمی عظمت ميں مزيد اضافہ ہوا۔ ان وجوه کی بناء پر جب 2016ء میں عربی ششم ميں داخلہ لينےكے ليے دارالعلوم ديوبند پہونچا تو سب سے زياده خواہش و آرزو مولانا ؒ كی ديد و شنيد کی تھی ،ليكن یہ خواہش تب پوری ہوئی جب اسباق شروع ہونےوالے دن مولانا ؒ درسگا ه آئے ، ایک نظر ديكھتے ہی سينہ خوشی ومسرت سے لبريز اور دل فرحت وانبساط سے معمور ہوگيا ۔ پہلے دن كا پہلا گھنٹہ كس برق رفتاری سےگذر گيا ،كچھ پتہ نہیں چلا۔
راقم الحروف کی خوش بختی اور سعادت كي بات ہے كہ اسے مولانا ؒ سے دوسال پڑھنے کی سعادت ميسر آئی،1۔ عربی ششم كے سال ديوان متنبی 2۔ تكميل ادب كےسال المختارا ت العربيہ،جو مولانا ؒ کی تدريسی زندگی كا آخری سال ثابت ہوا ۔ ان دو سالو ں ميں كيسے كيسے واقعات پيش آئےاو رانہو ں نے ہم لوگوں كےسامنے كتنےعلمی موتی لٹائے ،ناچيز اپنی كوتاہی ،ناقدری اورسستی کی وجہ سے ان سب كو نہ ياد ركھ سكا او رنہ ہی سپرد قرطاس كرسكا ،جو كچھ ياد ہے اسے بھی اس مختصر سے مـــــــضمون ميں بالتفصيل بيان كي گنجائش نہیں ہے ؛اس ليے اجمالاً ذكر كيےديتاہوں۔ مولاناؒ کی سب سےبڑی اوراہم خصوصيت جو انہیں اپنے معاصرين و اقران سے ممتاز كرتی ہے اورجس کی بدولت انہوں نے ایک انجمن اور اكيڈمی سے زياده كارہاۓ نماياں انجام دیا وقت کی بے حد قدردانی اور اصول پسندی تھی ،انہوں نےاوقات ليل و نهار كو اپنے كامو ں كےليےاس طرح تقسيم كر ركھاتھاكہ جس كام كےليے جو وقت مختص تھا اس كام كو اسی وقت انجام ديتے ،نہ ذرا اس سے پہلے اورنہ ہی لمحہ بھر بعد ۔وقت کی قدردانی اورپابندی كا يہ عالم تھا كہ ميرے علم كے مطابق عربی ششم كے سال پورے سال ميں كسی ايک دن بھی درسگاه گھنٹہ لگنے كے بعد نہیں آئے ؛بلکہ ہمیشہ گھنٹہ لگنےسے دو تين منٹ قبل ہی درسگاه ميں قدم رنجہ ہوجايا كرتے تھے ۔ ان كے اس درجہ وقت کی قدردانی اورپابندی كي وجہ سے ناچيز اور بہت سے ان طلباء كو جن كی سيٹ درس گاه سے دور آسامی منزل يا اعظمی منز ل ميں تھی ،پورے سال درسگا ه ميں قیلولہ كرناپڑا ۔ گھنٹہ لگنے كے فوراً بعد حاضری لينے كا حكم ديتے تھے ،حاضری لينے والا اگر تيس چاليس سيكنڈ بھی تاخير كرتا تو اسے سخت و سست سناتے؛ اس ليے حاضري لينے والے طالب علم كو پہلے ہی رجسٹر كھول كر ركھنا پڑتا تھا ۔ حاضری كےبعد اگر كوئی طالب علم پہنچتا تو اسے ايسی ڈانٹ پلاتے كہ اس كے چوده طبق روشن ہوجاتے تھے ۔ پھر رجسٹر لے كر گذشتہ كل غير حاضررہنے والے طالب علم كا نام ديكھتے ،اگر ان ميں سےكسی كانام يا اس كے علاقہ كانام منفرد قسم كاہوتا ،طويل ہوتا يا وه كسی كے نام ميں كچھ تغير و تبدل كرسكتے توتغير كركے لطف لیتے ، مسرت انگيز دو چار كمينٹ بھی كرتے اورلحيم و شحيم طالب علم كو دس پندره مدرسه قائم كرنے يامہتمم بننے کی بشارت دے كر خوب چٹکی ليتے ،خودبھی ہنستے، طلباء كو بھی ہنساتے ؛ بلکہ بعـض دفعہ ہم لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجايا كرتےتھے ۔ پھر غير حاضر رہنے والے طالب علم سے غير حاضری کی وجہ معلوم كرتے ،اگر كوئی معقول عذ ر بيان كرتا تو معاف كرديتے، ورنہ اٹھ بيٹھ كرنے كاحكم ديتے اور یہ وقت بھی ہم لوگوں كے لطف اندوزی اور ضحک كا ہوتا تھا ؛ كيوں کہ فرحت بخش انداز ميں كسی كو ساڑھے چار مرتبہ ،كسی كو پونےآٹھ مرتبہ اوركسی كو سوا دس مرتبہ اٹھ بيٹھ كرنے كو کہتے ۔حاضری مكمل ہونےكے بعد سلسلہ وار پانچ طالب علم عبارت پڑھتا ،اگر كوئی طالب علم سرعت كےساتھ يا عربی كو اردو لب و لہجہ ميں پڑھتا تو اس پر آگ بگولہ ہوجاتے؛ وه عربی عبارت كو عربی لب و لہجہ ميں پڑھنے كےسلسلے ميں اتنے سخت گير تھے كہ قواعد و اعراب کی غلطی ان كے نزديک قابل برداشت تھی ؛ ليكن عربی كو اردو لب و لہجہ ميں پڑھنا ناقابل برداشت ۔اوراگر كوئی طالب علم ان كےمنشاء كے مطابق عبارت پڑھتا تو خوش ہوتے اور عبارت کی تكميل كے بعد ماشاء الله يا جميل وغيره كہہ كر اس کی حوصله افزائی فرماتے ۔تكميل ادب كےسال ايک دن ميں بہ تكلف اورپوری سعی كركے ان کی منشاء كے مطابق عبارت پڑھ رہا تھا ،جس کی وجہ سے ميری عبارت خوانی كے مكمل دورانيے میں رفقاء درس ہنستے رہے ،جب ميں عبار ت کی قرأت سے فارغ ہوا تو مولانا ؒ كہنے لگے ،كيا بات ہے ؟تم عبارت پڑھ رہے تھے اور سارےطلباء ہنس رہے تھے ؛ حالانكہ پنچانوے فيصد طلباء تمہاری طرح عبارت نہیں پڑھ سكتے ،اگر انہیں كھڑا كياجائے تو ان کی نانی اوردادی دونوں مر جائے گی ؛ليكن مولويوں كامزاج بن چكا ہے كہ وه ہنسنے كا كوئی موقع ضائع نہيں ہونے ديتے ہیں ۔استاذ محترم کی زبان مبارک سے يہ ہمت افزاء كلمات سن كربےحد خوشی ہوئی اور حوصلہ بھی بلند ہوا،پھر اس كے بعدجب بھی عبارت پڑھنے کی باری آئی تو اسی انداز ميں پڑھنےکی كوشش کی ۔جب نامزد طلباء آپ كے حكم ديئے ہوئےآخری سطر تک عبارت پڑھ كر فارغ ہوجاتے تو وه از خود عبارت پڑھتے ،فعل ،فاعل ،متعلقات اور محذوفات کی تعيين كرتےہوئے ايک ايک جملہ اور ايک ايک پيرا گراف كا چار پانچ طريقے سے ترجمہ كرتے،ہر بعدوالا ترجمہ پہلے والے سے زياده شاندار ،شستہ ،شگفتہ ،شيريں ،سلیس اور فصيح و بليغ ہوا كرتا تھا ۔ عبارت ميں آئے ہوئے عمده لفظ كو كئی جملو ں ميں استعمال كركے دیكھاتے ،شاندار تعبير كي روشنی ميں كئی جملےبنا كر جملہ بنانےكے طرق سے آگاه كرتے اوراسے يہ كہہ كر اپنانے کی تلقين كرتےکہ اگر آپ نے اسےمشق و مزاولت كےذريعہ اپنابناليا تو يہ آپ كے فائدے کی بات ہوگی اور آپ كےعلمی و ادبی خزانہ ميں اضافہ ہوگا ،بصورت ديگر آپ كی محرومی ہوگی ،عربی زبان يا كتاب كا اس سے كچھ بھی نقصان نہ ہوگا ؛ كيوں کہ يہ لفظ اور يہ جملہ عربی زبان كا پہلے بھی تھا ،اب بھی ہے اور آئنده بھی رہے گا ۔ مولاناؒ کی زياده تر تعبير مدرسه قائم كرنے اور مهتمم بننے كےگرد و پيش گھومتی رہتی تھی ؛كيوں کہ موجوده زمانہ ميں صحيح طور پر دينی خدمت انجام دينے والے قابل قدر مدرسہ كےہوتےہوئے اسی علاقہ ميں موجوده مدرسہ كے نام پر چنده وصولنے اور اس كاچنده بانٹنےكےليے مدرسہ قائم كرنے ،چنده كےذريعہ پرشکوہ محل تعمير كرنے ،مہنگی گاڑی خريدنے اور سرمايہ كاری كے مقصد سے مدرسہ قائم كرنے، نااهل ،كم علم ،غير مخلص ،خشيت الهی اور آخرت ميں اپنے كيے كے ايک ايک عمل كاحساب دينے كے احساس و استحضار سے خالی افراد كے ذريعہ مدرسه قائم كرنے يا مہتمم بننے اور پھر خوف و خشيت الہی سےمعمور ،زہد واتقاء سے لبريز اور اپنے فرض منصبی كو احساس ذمہ داری كےساتھ ادا كرنےوالے اساتذه ٔ كرام كو تملق و چاپلوسی پر مجبور كرنے اور غلام بنانے نيز ايسے اداروں كی تاسيس كے موقع پر بنياد ڈالنےكےليے كسی بڑے عالم کی شركت كرنے كے سخت خلاف ،بے حد نالاں اور انتہائی گريہ كناں تھے ۔ او ر ان كا اس قسم كے اداروں كے مخالف ہونا بالكل برحق تھا ،جس سے كسی صحيح سوچ و فكر كے حاملين كو اختلاف كی قطعاً كوئی گنجائش نہیں ہوسكتی ہے ۔ تعبير کی نشاندهی او ران کی روشنی ميں جملہ سازی كے طرق سے واقف كاری كے بعدكسی اردو ياعربی كتاب كے پڑھنے ،اس سے لينے اور اخذ كرنے كے طرق سے صرف آشناهی نہیں كرتے ؛ بلكہ اخذ و استنباط کی صلاحيتيں بھی پيدا كرديتے تھے ۔خود راقم مولانا ؒ كے حلقہ درس كا خوشہ چيں بننے سے پہلے كسی كتاب كو پڑھتا تو پڑھتا چلا جاتا اور كتاب کی تكميل پر خوش بھی ہوتا ؛ليكن اخذو استنباط كی صلاحيت مفقود ہونے کی وجہ سے سوائے وقتی معلومات اور لذت كے كچھ ہاتھ نہ آتاتھا ۔اخير ميں اشعار کی ايسی تشريح كرتے جو انتہائی مرتب اور حشو وزوائد سے پاک ہونے کی وجہ سے ہم سبھوں كے ذہن ميں پيوست ہوجايا كرتی تھی ، دوران تشريح اردو وعربی كے الفاظ كے ذخيرے،تمثيلات ،كنايات اور محاورات ان كےسامنے دست بستہ كھڑے رہتے ،وه جب چاہتے ،جسے چاہتے اورجيسے چاہتے استعمال كرليتے تھے ۔دوران درس وه طلباء كو تركيز يعني يكسوئی اورذهنی جماؤپر خوب زور ديتے او رفرماتے کہ حصول علم كے بنيادی اسباب تين هيں 1۔ يكسوئي اور پوری توجہ كےساتھ گوش برآواز هوكر استاذ کی بات سننا 2۔اسے ياد كرنا 3۔ مشق و تكرار كےذريعہ اس طرح مستحضر اورذهن نشيں كرلينا کہ ساری درسی تقريريں آپ کی اپنی تقرير بن جائے ۔ كبھی كبھی اپنے زمانہ طالب علمی كا حال كچھ اس طرح بيان كرتےکہ مجھے پڑھنے لكھنے كا اس سےزياده شوق تھا جتنا کہ موجوده دور كے طالب علم كو موبائل اور ديگر آلات فرح و سرور كا ہے؛ اس ليے گردش ايام كےتھپيڑوں اور باد مخالف كے جھونكوں کی وجہ سے بيشتر اوقات ذهنی پريشانيوں ،الجھنوں اور فكری دباؤ كاشكار رہنے كےباوجود شب و روزكا اكثر حصہ پڑھنے لكھنے ميں گزارتااو ربالكل يكسوں ہو كرپڑھتا ،بالخصوص جب درسگاه جاتاتو خالی الذهن ،ساری ذہنی الجھنوں اور فكری تناؤ سے لاتعلق ہوكر كلاس ميں بيٹھتا اور استاذ کی بات كو اس طرح ہمہ تن گوش ہوكر سنتا جيسے ايک كتا گوشت ،ہڈی اور اپنی مرغوب غذاء کی طرف اپنےپورے وجود كےساتھ اس وقت متوجہ ہوتا ہے جب كوئی يہ ساری چيزيں دينےكےليے اس كے سامنے كھڑا ہو ۔ اس درجہ تلقين كے بعد بھی اگر كبھی كوئی طالب علم غافل ہوتا يا درسگاه ميں بيٹھ كر باہر کی خيالی دنيا ميں مست ہوتا ، تو اس پر دو چارمضحكہ خيز جملے چست كرديتے ،جس سے پوری درسگاه قہقہ زار ہوجاتی اور جوتصوراتی دنيا ميں ٹامک ٹوئيا مارنے والے طالب علم كےليےذہنی يكسوئ كانسخہ اكسير ہوتا تھا ۔
مولانا ؒاپنے استاذ مولانا وحيدالزماں كيرانوی ؒ كے اخص الخاص شاگر دہی نہيں ؛بلكہ ان كا عكس جميل تھے ،انہوں نے اپنے يكتائے زمن استاذ سے تعليم وتربيت كے حوالہ سے جن اصولوں ،كارآمد اور مفيد باتوں كو جذب كياتھا ،اسے طالب علم ميں منتقل كرنے كو اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے ۔وه طوالت كلام اور ايجاز مخل سے بچتے ہوئے ميانہ انداز ميں عبارت،تشريح ،محاورے يا كسی بھی بات كو ايسے مرتب اور سحر انگيز طريقے پر سمجھاتے کہ سامعين بآسانی سمجھ ليتے اوريادبھی كرليتے تھے ۔اس دوران وه باڈی لينگويج كا بھی مكمل سہارا ليتے ،جو طالب علم كےسمجھنے ميں بہت معاون ثابت ہوتاتھا ۔وه كتاب نہيں ؛بلكہ كتاب جس فن ميں ہے وه فن پڑھاتے تھے اورفن بھی اس طرح پڑھاتے کہ باذوق طلبہ ميں اس فن سے بے پناه عشق پيدا كرديتے تھے ۔مولانا ؒموجوده دور كے طلبہ كے بے ڈھنگے پن اورناہمواريوں سے حد درجہ نالاں تھے ؛ اس ليے بہت اہتمام سے اور درس كا ايک حصہ سمجھ كر زندگی گذارنےكے بہت سےچھوٹے،بڑے اصول بتاتے ،اس پر عمل كرنےکی تلقين كرتے اور خلاف ورزی کی صورت ميں كھری كھری سناتےبھی تھے ۔ مولانا ؒ ميں جتنا فہم كی صلاحيت تھی اس سےزياده تفهيم كاملكہ تھا جو كسی مدرس كے كامياب اور طلبہ ميں مقبول ہونےكےليے بےحد ضروری ہے ۔ورنہ وه علم كا دريااور سمندر ہونےكے باوجود طالب علم کی علمی تشنگی بجھانے سے قاصر رہتاہے ۔ اور اس غلط فہمی كاشكار ہو كر بہت خوش ہوتا ہے کہ اس نے تشنہ لب طالب علم كو اپنے چشمہ شيريں سے تشنگی سے زياده سيراب كيا؛حالاں کہ طالب علم ان كے گھنٹے ميں شركت كو ضياع اوقات گردانتے اور باور كرتےہيں اورربدرجہ مجبوری حاضر ہوتے ہيں ۔
مولانا ؒ سے پندره بيس سال قبل استفاده كرنےوالےحضرات جو اس وقت آسمان علم و ادب پر آفتاب وماہتاب بن كر چمک رہےہيں اور دنياكی سير كررہےہيں وه دو ٹوک اور واضح انداز ميں كہتےہيں کہ ہم لوگ بڑےبڑےشيوخ ،ادباء ،اساتذه ،دانشوران اور مفكرين كے حلقہ درس ميں استفاده يا ٹيچر ٹريننگ كورس کی تكميل كے غرض سے شريک ہوئے ؛ليكن سب کی عظمت و احترام كےساتھ ہم كہہ سكتے ہیںں کہ ان كےمعاصرين ميں كسی كو تعليم وتربيت كے حوالہ سے ان كاثانی نہیں پايا ۔
مولاناؒ جتنی شستہ اور شاندار عربی يا اردو زبان بولتےتھے ،اس سے عمده زبان وه لكھتے تھے ،اس بات كی تصديق هر وه شخص كرے گا جس نے ان کی تحريرپڑھا او ر انہیں سناہے ۔انہیں عربی زبان سے حقيقی عاشق کی طرح عشق تھا او راردو زبان سے اكلوتے فرزند كی طرح محبت تھی ،اسی عشق كرشمہ ساز كی وارفتگی كانتيجہ تھا کہ دونوں زبانوں كےساتھ بےانصافی كے اس دور ميں نہ صرف انصاف كيا؛بلکہ انہوں نے معشوق كےگيسوئے برہم کی طرح ان دونوں زبانوں کی نوک و پلک كو سنوارنے ،صحيح طور پر پھيلانے اور عام كرنے ميں پوری زندگی صرف كركے ان كے حقيقی محسن قرار پائے ۔انہوں نے تادم حيات ان دونوں زبانوں ميں خوب لكھا اور بہت عمده لكھا ،وه ايک ايک لفظ اورجملہ كو صحت كے معيار پر پركھتے ،تولتے اور پھر لكھتے تھے ،وه جس موضوع پر بھی لكھتے ،خوب مطالعہ ،باريک بينی سے چھان بين اور بسيار غور وفكر كے بعد عرق ريزی وجانفشانی كے ساتھ اس طرح لكھتےكہ اس كے سارےگوشے آشكارا ہوجاتے اور اس موضوع پر ان کی تحرير حرف آخر ہوتی ،جس كے سامنےاس سےپہلے اور بعد كی تقريباً تمام تحريروں کی حيثيت ايسی ہی ہوتی جيسی روشن سورج كے سامنے چراغ کی ہوتی ہے۔انہوں نے علمی ،ادبی ،سماجی ،سياسی ،اخلاقی اور اصلاحی ہر موضوع پر لكھا ؛ليكن ان كا دلچسپ موضوع عالم اسلام ،بالخصوص فلسطين كے مسائل تھے۔وه وہاں كےحالات سے اسی طرح واقف تھے جيسےعربی صحافی واقف ہوا كرتا ہے؛اس ليے انہوں نے عرب كے سر پر منڈلاتےہوئے خطرات كے بادل اور اس کی گردن پر اسرائيل و امريكہ كی سازشوں كی لٹكتی ہوئی تلوار عجمی وعربی مسلمانوں، عيش كوشی ميں مست عربی سلطنت اور اركان سلطنت كو دكھانے او ربتانےكے ليے اس موضوع پر اتنا لكھاكہ ايك ضخيم كتاب ’’ فلسطين فی انتظار صلاح دين‘‘ تيار ہوگئ۔اپنےتجربات و مشاهدات او رذہني افكار و اختراعات كو بھی پابندی سے اشراقہ كے عنوان سے سپرد قرطاس كيا ،جو بعد كو پانچ جلدوں پر مشتمل چھبيس سو صفحات كی كتاب ’’ من وحي الخاطر ،، كے نام سےمنظر عام پر آئی ۔آپ ؒ نے سير و سوانح پر بھی خوب لكھا او راپنے زور قلم سے سينكڑوں شخصيات كی حقيقی ،واقعاتی اور تصوراتی تصوير كشی كركے انہيں گور زمين سے فلک پر پہونچاديا،جو مشہور تھے ان کی شہرت كو پھول بوٹے لگائے ،جو گمنام تھے اور كم شہره ركھتےتھے ان كو شہرت عام اور بقائےدوام عطاكيا ۔اس موضوع پر آپ کی انتہائی جامع ،جذبات سے لبريز اور تأثرات سے بھر پور ،تين شاہكار اور لاثانی كتابيں 1۔ وه كوه كن کی بات 2۔پس مرگ زنده 3۔رفتگان نارفتہ علمی وادبی حلقوں ميں بےحد مقبول ہوئيں اورہر باذوق قاری سے داد تحسين وصول کی ۔علاوه ازيں عربی و اردو زبان ميں آپ کی كئ كتابيں اور تراجم نے علمی وادبی لائبريری ميں وقيع اور گراں قدر اضافہ كيا اور پانچ سو سے زائد مقالات و مضامين مختلف علمی ،ادبی ،فكری ،دعوتی اور اصلاحی رسالہ وميگزين کی زينت بنے ۔آپ ؒ کی ساری كتابيں قديم و جديد علمی وادبی حلقوں ميں مقبول ہیں ؛كيوں کہ آپ کی كتابوں ميں قاری جہاں مواد و معلومات کی كثرت ،تمثيلات و كنايات اور محاورے كے ذخائر ،كسی فكر كو پيش كرنے كاڈھنگ و آهنگ اور بات سے بات پيدا كرنے كے طرق سے آگاه ہوتاہے ، تو وہيں فصاحت و بلاغت كی چاشنی ،زبان کی شيرينی ، پيرايہ بيان کی شستگی ،الفاظ کی شوكت ،تعبير کی لذت ،طرز ادا کی نزاكت ،جملوں کی حلاوت ، ادب کی لطافت ،طرز نگارش کی ندرت ،كہاوتوں اور محاوروں کی غير معمولی جاذبيت اور اسلوب كےبانكپن سے بھی لطف اندوز ہوتاهے ۔
مولانا ؒ كی تحرير جس طرح نفيس اور ديده زيب ہوا كرتی تھی ،اسی طرح وه خود بھی نفيس طبع تھے ۔ان کی نفاست ،رہن سہن ،نشست وبرخاست ،رفتار وگفتار ،لباس و پوشاک حتی کہ زندگی كے ايک ايک عمل اور ادا سے چھلكتی اورجھلكتی تھی ۔ميں نے كبھی ان كي ٹوپی ،كرتا ،پائجامہ اور شيروانی پر ايك بھی داغ و دھبہ او رميلاپن نہيں ديكھا ،اسی طرح ان كے جوتےپر بھی كسی طرح کی كوئ گندگی نظر نہیں آئی؛ بلکہ ان كے جوتے بھی شيروانی کی طرح چمكتے تھے ،ايسالگتا تھا کہ وه ہردن جوتےپر پالش كرتےياكرواتےہيں اورہر دن لباس تبديل كرتےہيں ۔مولاناؒ جس طرح خود نفاست ذوق كے مالک تھے ،اسی طرح وه اپنے ملنے جلنے والوں اور شاگردوں كو بھی ديكھناچاہتے تھے اور درسگاه ميں كبھی كبھی اس کی تلقين بھی كياكرتے تھے ۔
آه ! ايسے مجمع الكمالات اور گوناگوں صفات جميلہ كے حامل ،مثالی استاذ و مربی اور اديب 20/ رمـضان 1442ھ مطابق 3/مئي 2021ء روز پير وقت سحر زبان حال یہ كہتےہوئے ہميشہ كےليے رخصت ہوگئے ۔
كون جينے كےليے مرتارہے
لو سنبھالو اپنی دنيا ہم چلے
يقيناً ان كے چلےجانے سے علمی وادبی دنياسوگوار اور مسند علم و ادب سونی پڑگئی اوريہ سونا پن بہت دور اور بہت دير تک محسوس كياجاتا رہے گا۔
بارگاه الہی ميں ايک ادنی شاگرد اپنے جليل القد ر استاذ كےليےدل سے دعاگو ہے كہ الله پاک ان کی بال بال مغفرت فرمائے ،لغزشوں سے چشم پوشی كرے ،جنت الفردوس ميں انبياء ،صلحاء اور صديقين كے جوار ميں جگہ نصيب فرمائے ،پسماندگان كو صبر جميل عطاء كرے اور ان كے باقی مانده علمی كارناموں کی تكميل كا كوئی سبيل پيداكرے ۔ آمين يارب العالمين۔