معاشرہ میں رائج گناہ

Image Source: Dreamstime

آج کل دنیا میں گناہ اور جرائم کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے، لوگ بے پناہ جرم کرتے ہیں اور ان جرائم کا اقبال بھی نہیں کرتے، آخر کیوں؟
اس لئے کہ ہم شاید اسلام کی تعلیمات بھول چکے ہیں، رسول کریمؐ کے بتائے ہوئے احکام کو ہم نے فراموش کردیا اور مادہ پرستی میں مبتلا ہو گئے۔
ہم نے آس پاس دیکھیں تو بہت سے لوگ سود، رشوت، جھوٹ، خودغرضی، غیبت، چغلی، بہتان طرازی، جوا، شراب، افواہ پھیلانا اور دوسرے نہ جانے کتنے گناہوں میں ملوث نظر آتے ہیں۔
جھوٹ: سب سے بڑی برائی جو ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہے وہ جھوٹ ہے۔ اور حیرت کی بات یہ کہ جھوٹ بولنا بھی عام ہوگیا ہے اور اسے معمولی سمجھا جانے لگا ہے۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ نے جھوٹ کو منافقین کی علامت قرار دیا۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
“أية المنافق ثلاث إذا حدث كذب، إذا وعد اخلف، إذا اؤتمن خان(رواه البخاري)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا‌: “الصدق ینجی و الكذب يهلك”
اس بات کا ہم مشاہدہ بھی کرسکتے ہیں، اگر ہم سچ بولتے ہیں تو ہماری گرفت بھی کم ہوتی ہے، لیکن جھوٹ بولتے ہیں تو سوالات کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں، اور سچ‌ کو چھپانے کے لئے ستر جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
“اياكم و الكذب فأن الكذب يهدي إلى الفجور و الفجور يهدي إلى النار و أن الرجل ليكذب و يتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا” (رواه أبو داود)۔
یعنی جھوٹ بولنے سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم تک،اور انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اللہ کے یہاں جھوٹا ہی لکھ دیا جاتا ہے۔

غیبت: بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے خواہ مخواہ دوسروں کی باتیں کرتے ہیں، اگر کچھ دیکھ لیا تو فوراً دوسری مجلس میں ذکر کرنے لگ تاکہ اس شخص کو حقیر ظاہر کرسکیں لیکن یہ مقولہ مشہور ہے جس کو اللہ رکھے اس‌‌کو کون چکھے۔ اور بساوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی کے بارے میں لوگ ایسی باتیں بیان کرنے لگتے ہیں جو اس نے کہا ہی نہیں اس کو بہتان کہتے ہیں۔ الزام کی مذمت کے سلسلے میں اللہ رب العزت نے سورہ نور میں دس آیتیں نازل فرمائیں۔ اس سے اسکی قباحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اسلئے اس سے بچنا چاہئے کیونکہ اس سے اس انسان کا کچھ نہیں بگڑے گا جس کی غیبت کی جا رہی بلکہ خسارہ غیبت کرنے والوں کا ہے۔ قرآن اپنے لوگوں سے مخاطب ہوتا ہے ، “ایجب احد کم ان یاکل لحم اخیه میتا فکرھتموہ” (سورہ الحجرات)۔
یعنی لوگوں کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کریگا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقینا تم اسے براجانوگے۔
اس آیت کے مفہوم پر غور کرنے سے بھئ اندازہ ہوتا ہے کہ غیبت کتنا قبیح فعل ہے، کسی انسان کے پاس اتنا بڑا جگر ہے کہ وہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے؟ وہ بھی ایسا بھائی جسکا انتقال ہو چکا۔ اسلئے ہمیں ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
خود غرضی: خود غرضی سے بچنے کے سلسلے میں ہمارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “لا یؤمن احدکم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه” ( رواہ البخاری)۔
یعنی جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ برائیاں اور مصیبتیں ہم سے کوسوں دور رہیں اسی طرح ہمیں اپنے(دینی) بھائی کی فکر ہونی چاہئے نہ کہ خود بچ جائیں اور اپنے مسلمان بھائی کو تباہی کے دہانے پر چھوڑ دیں۔ الغرض خود غرضی کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور ہم اپنے بھائی کی ہر طرح مدد کرنے کی کوشش کریں خواہ اس کو کسی بھی میدان میں مدد کی ضرورت پڑے ہمیشہ تیار رہیں اور مسلمانوں کے ساتھ اپنے ساتھ رہنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کی بھی مدد کرنے کی کوشش کریں، اور اپنی ذات کو دوسروں کی خوشیوں کے لئے وقف کر دیں تو ہمیں خود یہ اندازہ ہوگا کہ اسکو ملنے والی کامیابی کی خوشی جتنی اسکو ہے اس سے کہیں زیادہ ہمیں ہوگی۔
بے پردگی: مغربی کلچر اپنی چمک دمک دکھا کر خواتین کو اپنے پھندے میں پھنسانے میں کا میاب رہا، ہمارے سر سے عفت و عصمت کی چادر کو کھینچ پھینکا،ہمیں ہمارے محفوظ قلعوں سے نکال کر بازاروں کی زینت بنادیا۔ جبکہ ہمارا قرآن کہتا ہے “وقرن فی بیوتکن”۔ (اپنے گھروں میں ٹک کر رہو)۔ دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: “وقل للمومنات یغضضن من ابصارھن ويحفظن فروجهن ولا يبدين زينتھن”۔
ان آیات کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ اگر ہم اپنے گھر میں سکون سے رہیں تو ہم بارش کے اس قطرے کے مثل ہیں جو ایک صدف میں بند رہ کر گوہر نایاب بنتا ہے، اگر اس سے باہر نکل جائیں تو ایک عام قطرہ ہو جائے گا۔ اسلئے ہمیں زیادہ سے زیادہ پردے کا اہتمام کرنا چاہئے اس کے ذریعہ معاشرے میں بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے

اللہ ہمیں ایسے سنگین گناہوں سے دور رکھے اور معاشرے میں پھیلے تمام شرور وفتن سے محفوظ فرمائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here