سر زمین علی گڑھ اور تحریک آزادی

ہمارے ملک  ہندوستان میں ایک ایسا بھی شہر ہے جو صدیوں سے اپنی منفرد پہچان کے سبب اپنا  لوہا منوا رہا ہے۔کبھی یہ آگرہ اور   دہلی کی سلطنتوں کے درمیان ایک اہم قلعہ اور فوجی چھاؤنی کی حیثیت سے  جانا گیا توکبھی نیل کی تجارت کے لئے،کبھی سرسید احمد خاں کی قائم کردہ  تعلیمی ادارے اور کبھی تالوں کی تجارت کے وجہ سے اس تاریخی شہر کی دنیا  بھر میں شناخت قائم ہوئی۔ اس شہر کی تاریخ بہت قدیم ہے۔جو 1100 ق۔م متھرا  کے  مہاراج شری کشن جی سے جاکر ملتی ہے۔ کہتے ہیں ان کے بھائی بلرام جو داؤجی کےنام سے بھی جانے جاتے ہیں انھوں نے دو آبہ کے راجہ سے اس مقام پر جنگ کی تھی اور اہیروں کی مدد سے یہ علاقہ فتح کر لیا تھا ۔اس جنگ کو آسورہ  (ASURA)  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ہندی میں اسے کولا (KOLA)  کہتے ہیں۔اسی وجہ سے یہاں کے باشندوں کو کوئلا (KOILA)  کہا  گیا جو بعد بدل کر کول (KOAL) ہوگیا۔پھر اس کے بعد اس شہر  کے تاریخ  میں مختلف زمانوں میں مختلف نام دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثلاً: کور، محمد گڑھ، ثابت گڑھ، رام گڑھ، علی گڑھ۔

علی گڑھ اور 1857ء  کی جنگ آزادی:

تاریخ شاہد ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں ہندوستان کی عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ہندوستان کے مختلف شہروں سے بغاوت کی آواز بلند ہوئی تھی۔اور لوگ انگریزی حکومت کے خلاف  جنگ کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل آئے تھے۔علی گڑھ شہر کی عوام بھی اس مرحلے میں پیش پیش رہی۔تاریخ میں رقم ہے کہ جب جنگ آزادی کی شروعات ہوئی تو  علی گڑھ میں موجودنمبر9۔این آئی (نیٹوانفنیٹری) کے کچھ دستوں نے اچانک بغاوت شروع کر دی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ دہلی کی طرف روانہ ہوگئے۔ واقعہ 19 مئی 1857ء کی رات کا ہے جب علی گڑھ کے قریب ایک گاؤں میں شادی کی تقریب کاانعقاد ہو رہا تھا۔جس میں نمبر9۔این آئی کے کچھ سپاہی شامل ہونے گئے تھے۔ یہاں شادی کی تقریب میں ایک زمیندار  نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ تحریک آزادی کی جنگ میں شریک ہونے جارہا  ہے۔یہ خبر سپاہیوں کے ذریعے دیگر افسروں تک پہنچ گئی۔اس زمیندارکوگرفتار کرکے پھانسی پر لٹکا دیا۔اس واقعہ نے لوگوں کے دل میں آزادی کی آگ کو مزید  بھڑکانے کا کام کیا۔جس کے  بعد نمبر9۔این آئی کے  کچھ سپاہیوں نے بھی اپنی  وردی اتار دی اور انگریزی حکومت کے خلاف کھل کر بغاوت  پر آمادہ ہو گئے۔ اس کے کچھ ہی دیر کے بعدانگریزوں کے  بنگلوں اورچھاؤنیوں کو آگ لگا دی گئی۔ ہاتھرس کیولری نے بھی بغاوت کر دی اور دہلی کی طرف کوچ کر گئے۔ 20مئی کو ایک برہمن (نرائن) کو انگریزوں نے گرفتار کر لیا جوبغاوت کا منصوبہ بنار ہا تھا اورفوجیوں کو یقین دلارہا تھا کہ گاؤں کے عوام بغاوت میں ان کا پورا ساتھ دیں گے۔ اسے 20 مئی کی شام کوبرہمن کو علی گڑھ لاکر تمام ہندوستانی سپاہیوں کے سامنے پھانسی دے دی گئی۔ اس سےسپاہیوں کے جذبات مشتعل ہوگئے اورسپاہیوں نے اپنی تلواریں میان سے باہر نکال لیں اورغضبناک ہوکرحکومت کے خلاف  جنگ میں گود پڑے۔برہمن کے اس واقعے کی خبروں نے آس پاس کے علاقوں مثلاًمین پوری، اٹاوہ اور ایٹہ وغیرہ کے دیسی سپاہیوں میں بھی بغاوت کی آگ بھڑکادی۔ یکم جون1857ء  کو چوہان راجپوت راؤ بھوپال سنگھ نے کھیر پر قبضہ کرلیا لیکن ایک انگریز افسرواٹسن نے گرفتارکرکے انھیں پھانسی دے دی۔ اس پر چوہانوں ،جاٹوں اور دیگر عوام نے بدلہ لیا۔انھوں نے کھیر پرحملہ کر کے سرکاری عمارتیں جلا دیں اور حکام کو مار بھگایا۔ وہاں کی مسجدوں میں جہاد کا اعلان کیا گیا۔ مسلمان مجاہدین سربکف میدان میں نکل آئے۔30 جون 1857ء کو واٹسن کی فوج پر مڈراک علی گڑھ پر حملہ کیا گیا ۔ ولی دادخاں کو بہادرشاہ کی طرف سے علی گڑھ کا صوبے دار اورغوث محدواخاں کو نائب صوبےدار مقرر کیا گیا تھا۔ غوث خاں 28جولائی 1857ء کو یہاں پہنچے۔ انھوں نے قرب وجوار کے جاگیرداروں کو مدد کرنےکایقین دلایا اورفوج میں لوگوں کی بھرتی کی ۔ جاگیر دار رام بخش ، ہیراسنگھ اور گو پال سنگھ ان کے ساتھیوں میں قابل ذکر ہیں۔

ہاتھرس میں ٹیکم سنگھ اورٹھاکر گوبند سنگھ وغیرہ نے انتظامات سنبھالے۔ 21اگست 1857ء کو میجر منٹگمری نے ہاتھرس پر قبضہ کر لیا اور 24 اگست کوعلی گڑھ کے انقلابیوں سے مڈراک کی سٹرک پر تصادم ہوا جوغوث خاں اور مولوی عبدالجلیل کی کمان میں تھے اورمان سنگھ کے باغ (علی گڑھ کے قریب) میں مقیم تھے۔ اس جنگ میں انقلابیوں کوشکست ہوئی،غوث خاں مالاگڈھ چلے گئے۔اور مولوی عبدالجلیل شہید ہوئے۔

الغرض جنگ آزادی کی تحریک میں علی گڑھ کی عوام نے جو قربانیاں دی ہیں ان کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔بڑے بڑے مجاہدین آزادی کا تعلق اس شہر سے رہا ہے۔ جواہر لال نہرو، بال گنگا دھر تلک اور مہاتما گاندھی کا اس شہر سے ایک خاص تعلق رہا ہے۔

مہاتماگاندھی  اور علی گڑھ:

مہاتما گاندھی کئی بار علی گڑھ آئے۔یہاں کی عوام اور طلبہ سےمخاطب ہوئے۔یہاں کے لوگوں نے  بھی ملک کو انگریزوں سے آزادی دلانے کے لئے گاندھی جی کا بھرپور ساتھ دیا۔وہ سن 1920ء میں جب علی گڑھ آئے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیا۔انھیں طلبہ یونین کی تاعمر رکنیت سے نوازا گیا۔گاندھی جی یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے شخص تھے۔ گاندھی جی نے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئےکہا تھا کہ” اگر یونیورسٹی کے طلبہ میرے ساتھ آئیں تو آزادی کا مقصد حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا”۔ اس کے بعد مہاتما گاندھی کے کہنے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بہت سے طلبہ آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے۔

علی گڑھ میں عبد المجید خواجہ کے ساتھ باپو کے قریبی تعلقات تھے۔ عبدالمجید خواجہ نہرو جی کے بھی قریب تھے۔ ان کا تذکرہ نہرو جی نےاپنی خود نوشت سوانح ”مائی اوٹو بایوگرافی” میں بھی کیا ہے۔گاندھی جی علی گڑھ جب بھی آتے عبدالمجید خواجہ کی کوٹھی پر قیام کرتے۔آج یہ کوٹھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے یو جی سی اکیڈمک اسٹاف کلب کے نام سے مشہور ہے۔ عبدالمجید خواجہ نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 1920 ءمیں ایم ۔اے ۔او کالج کو اے ۔ایم۔ یو کا درجہ ملنے کے بعد مجید خواجہ نے محکمہ قانون میں بھی درس و تدریس کا عمل انجام دیا۔ عدم تشدد کی پالیسی سے متأثر ہوکر وہ آزادی کی تحریک میں گاندھی جی کے شانہ بہ شانہ رہے۔مہاتما گاندھی کی سربراہی میں علی گڑھ میں جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کے بانی ارکان میں عبد المجید خواجہ بھی شامل تھے۔ بعد میں دہلی میں اس کا قیام عمل میں آیا۔

مہاتما گاندھی نے عوام کو سودیشی تحریک سے جوڑنے کے لئے طالب علموں کو کھادی کے استعمال کرنے کے لئے کہا تھا۔ سودیشی تحریک کا ساتھ دیتے ہوئے طلباء نے غیر ملکی کپڑوں کی ہولی جلائی۔ اے ایم یو کے سابق طالب علم حسرت موہانی نے رسل گنج میں کھادی اسٹور کھول کر سودیشی تحریک کو فروغ دیا تھا۔ اسی دوران مہاتما گاندھی نے عبدالمجید خواجہ اور علی گڑھ کے عبدالباری کو بھی بہت سے خطوط لکھے جو آج مولانا آزاد لائبریری میں محفوظ ہیں۔ان تمام شواہد کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کافی امیدیں تھیں۔ تاریخ شاہد ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے تحریک آزادی کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قید و بند کی مصیبت  برداشت کرتے ہوئے اپنے جان و مال کی قربانیاں بھی پیش کیں۔

22 دسمبر 2020ء اے ایم یو صد سالہ تقریب کے موقع پر ملک کے وزیر اعظم عزت مآب نریندرمودی نے اے ایم یو کی خدمات کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ “اس عظیم تعلیمی ادارے نے ملک کے عظیم سپوت اورمجاہدین آزادی پیدا کئے۔ وطن کی آزادی نے ملک کے ہر طبقے کے لوگوں کو جوڑ دیا اوراس سے نئی بھارت کی باگ ڈور ڈالی گئی اور ہمیں کسی بھی چیز کو سیاسی نقطہ نظر نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ اس سے منفی رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔”

عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تحریک آزادی میں خدمات :

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایسے بہت سےطلبہ تھے جنھوں نے تحریک آزادی میں حصہ لیا اورگاندھی جی اور بال گنگا دھر تلک کو اپنا  رہنما تسلیم کیا ۔ذیل میں کچھ ایسے مجاہدین  آزادی کا نام دیا گیا ہےجن کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے رہا ہے۔

(1)        خان عبد الغفار خاں

سرحدی گاندھی کے نام سے مشہور خان عبد الغفار خان کا ہندوستان کی  تحریک آزادی میں ایک اہم رول رہا ہے۔یہ گاندھی جی کے بڑے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کی پیدائش 6 فروری 1890 ءکو اُتمانزائی ہشتنگر (حالیہ مقام خیبر پختو ،پاکستان)میں ہوئی ۔آپ کے والد کا نام بہرام خان تھا، آپ کی تعلیم جامعہ علی گڑھ میں ہوئی۔ کچھ دن خاندان کے دباؤ پر آپ برطانوی فوج میں بھی شامل  رہے۔لیکن ملک  سے محبت کا جزبہ آپ کے دل میں جوش مار تا رہا۔آپ انگریزوں کو ملک کا دشمن تصور کرتے تھے۔  برطانوی افسر کے ناروا سلوک کی وجہ سے وہ زیادہ دن اس ملازمت میں نہیں رہے۔ فوج کی نوکری چھوڑ کر برطانوی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔انھوں نے اصلاحات کو اپنامقصد حیات بنا لیا اوراسی سوچ نے انھیں “عمرانی تحریک” شروع کرنے پر مجبور کیا، اوراسی تحریک کی کڑی “خدائی خدمتگار تحریک” سے جاملتی ہے۔اس تحریک میں آپ کے ساتھ تقریبا ایک لاکھ لوگ جڑئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے انگریز  آپ کو اپنا  بہت بڑا دشمن تصور کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سرحد پار گاؤں کے لوگوں کو تشدد سے عدم تشدد کی طرف لے جانے کے لئے گاندھی جی نے انھیں بھیجا۔ خان عبد الغفار خان نے گاؤں والوں کے نظریے کو بدل کر انھیں اپنے ملک سے محبت کرنے پر آمادہ کیا اور تمام گاؤں والوں کواپنا حامی بنالیا۔ اس لیے انھیں ْسرحدی گاندھی ٗ نام دیا گیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے ہندوستان کی تقسیم کی بات چیت کرنے پر خان عبد الغفار خان نے اُن کی سخت مخالفت کی ۔ انھیں 1962ءمیں‘‘ تنظیم برائے بین الاقوامی عفو عام ’’سے نوازا گیا،اس کے بعد 1967ء میں‘‘جواہر لال نہرو ایوارڈ فار انٹرنیشنل انڈر اسٹینڈنگ’’ دیا گیا اور1987ء میں بھارت سرکار نے انھیں بعد از مرگ بھارت کے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن ایوارڈسے نوازا۔1987ء کا درمیانی حصّہ انھوں نے جیلوں اورجلا وطنی میں گزارا۔ افغانستان جلال آباد میں آپ کا انتقال ہوا۔

 (2)       مولانا  محمد علی جوہر

  تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون کے معروف چہرےمولانا محمد علی جوہر کی ولادت 10 دسمبر 1878ءکو رام پور میں  ہوئی۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم دارالعلوم دیو بند سے حاصل کی۔اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئےانھیں علی گڑھ بھیجا گیا۔  پھر انھوں نے 1898ءمیں لنکوئن کالج، آکسفورڈ میں داخلہ لیا۔ ہندوستان واپسی کے بعد ان کو رامپور اسٹیٹ کا ایجوکیشن ڈائریکٹر بنایا گیا۔وہ صرف مجاہد آزادی ہی نہیں تھے، ایک مقبول صحافی، اسکالر اور شاعر بھی تھے۔انھوں نے  دی ٹائمس، دی مانچسٹر گارجین، دی آبزرور جیسے مقبول اخبارات میں نہ صرف مضامین لکھے بلکہ 1911 ءمیں کلکتہ سے ‘دی کامریڈ’ کے نام سے ہفتہ وار انگریزی اخبار بھی شروع کیا جس نے بہت جلد شہرت حاصل کر لی۔ 1913 ءمیں انھوں نے دہلی سے ‘ہمدرد’ کے نام سے اردو روزنامہ بھی شروع کیا جو بے باک خبروں اور بے خوف تحریروں کے سبب لوگوں کی پسند بن گیا تھا۔ہندوستان کی آزادی کے لئےانھوں نے صرف قلم کا ہی سہارا نہیں لیا بلکہ اپنی تقریروں اور تحریروں سے بھی انگریزوں کی مخالفت کرتے رہے۔  1930ءمیں گول میز کانفرنس میں شرکت کے مقصد سے جب وہ انگلینڈ گئے تو انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ “تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہیں کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا۔” بالآخر 4 جنوری       1931ءمیں لندن میں ہی ان کا انتقال ہوا۔

(3)    مولانا شوکت علی

شوکت علی مولانا محمد علی جوہر کے بھائی تھے اور خلافت تحریک میں اُن کے شانہ بشانہ تھے۔ عظیم رہنما مولانا شوکت علی کی پیدائش 10 مارچ  1873 ءکو رام پور میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم علی گڑھ میں ایم اے او کالج سے حاصل کی اور جلد ہی سرکاری ملازمت سے منسلک ہو گئے۔ لیکن 1913ءمیں انھوں نے ملک کی آزادی کی خاطر ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور انجمن خدام کعبہ کی بنیاد رکھی۔ سیاسی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے کے سبب انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں۔  1919ءمیں اپنے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ تحریک خلافت کی بنیاد بھی ڈالی۔ ہندو-مسلم اتحاد کو مضبوط بنانے کے لئےمولانا شوکت علی نے گاندھی جی کے ہر قدم میں ان کا ساتھ دیا۔ مہاتما گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے سبب 1921ءسے 1923ء کے درمیان انھوں نے جیل میں قید و بند کی زندگی بھی گزاری۔ 1937ءمیں وہ مرکزی قانون ساز اسمبلی کے ارکان بھی منتخب کیے گئے۔ بہر حال، ملک کی آزادی کا یہ جانباز سپاہی 26 نومبر 1938ءکو اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔ ان کا انتقال دہلی کے قرول باغ میں ہوا اور تدفین 28 نومبر کو جامع مسجد کے قریب ہوئی۔

(4)        حسرت موہانی

اصل نام سید فضل الحسن اور تخلص حسرتؔ، قصبہ موہان ضلع اناؤ میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ 1903ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ حسرت سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انھوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ وہ سودیشی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ چنانچہ علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا تھا :

“تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاست داں بنے اور اب بنئے ہو گئے ہو”۔ حسرت پہلے کانگریسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلاف تھی۔ چنانچہ 1907ء میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیے گئے۔ اس کے بعد 1947ء تک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔مگر ان تمام مصائب کو انھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مرتے دم تک ملک کی فلاح و بہبودی کے لئے کام کرتے رہے۔

(5)        رفیع احمد قدوائی

   اترپردیش کے بارابنکی ضلع کے مسولی میں رفیع احمد قدوائی کی پیدائش 18 فروری  1894ءمیں ہوئی تھی۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے انھوں نے  1918ءمیں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور آگے قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن مہاتما گاندھی کی اپیل پر تعلیم ترک کر کے تحریک عدم تعاون میں شامل ہو گئے۔ اس شراکت داری کے لئےانھیں قید کی صعوبت بھی دیکھنی پڑیں۔ ان کے اندر تنظیمی صلاحیت بے پناہ تھی۔ جواہر لال نہرو نے انھیں الہ آباد بلایا اور اپنا ذاتی سکریٹری منتخب کیا۔  1930ءمیں جب رائے بریلی کے غریب کسان ٹیکس ادا کرنے کے لائق نہیں تھے تو رفیع احمد قدوائی نے ان کے حق میں تحریک چلائی جس کے لئے انھیں انگریزی حکومت نے 6 مہینے قید کی سزا سنائی۔ ملک کی آزادی کے بعد ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے جواہر لال نہرو نے انھیں وزیر مواصلات کا عہدہ دیا۔ رفیع احمد قدوائی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جواہر لال نہرو کی کابینہ میں صرف دو مسلم شامل تھے، ایک رفیع احمد اور دوسرے مولانا ابوالکلام آزاد۔ ملک کے اس مجاہد آزادی کا انتقال 24 اکتوبر  1954ءکو ہوا۔

(6)        شفیق الرحمن قدوائی

شفیق الرحمن قد وائی 3 دسمبر 1901ء کو ضلع بارہ بنکی بڑا گاؤں میں پیدا ہوۓ ۔ انہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم گھر ہی پر حاصل کی ۔ پھر کچھ دنوں شہر بارہ بنکی میں زیرتعلیم رہے۔ ان دنوں مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ کی شہرت ہندوستان بھر میں پہنچ چکی تھی ،اور بڑے لوگوں کے بچوں کی تعلیم کا گہوارہ تھی ۔موصوف علی گڑھ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بھج دیا گیا۔ابھی بی۔اے سال دوم ہی کے معلم تھے کی کہ مہاتما گاندھی اورعلی برادران کی تحریک آزادی سے متعارف ہو گئے ۔ علی گڑھ یو نیورٹی کے انقلاب پسند طلبا کے ساتھ 12 اکتوبر 1920ءمیں مہاتما گاندھی کی تحریک آزادی میں حصہ لینا شروع کیا۔شفیق الرحمن قد وائی نے طلبہ کی بڑی تعداد کے ساتھ گاندھی جی کی تقر یر پرغیرملکی کپٹرے یکجا کر کے نذرآتش کر دیے۔ اور کھدر زیب تن کرلیا۔سفید اور صاف ستھرا کھدر کا کرتا پاجامہ، اس پر جواہر کٹ اور سر پر گاندھی ٹوپی ان کا پسند یدہ لباس بن گیا۔ انہوں نے ہمیشہ کے لئے غیرملکی کپڑے پہننا ہی  ترک نہیں کیا بلکہ تحریک آزادی کی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینےلگے۔ یہ بات ایم او کالج کے پرنسپل تک پہنچ گئی لیکن وہ انگریز مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ کالج کی سرکاری پالیسی کے خلاف طلباءکو ورغلانے کے الزام میں کالج سے انہیں نکال دیا گیا۔ شفیق الرحمن قد وائی محض ایک مجاہد آزادی ہی نہ تھے، وہ ایک زبردست ماہرتعلیم بھی تھے۔

(7)عبد المجید خواجہ

عبدالمجید خواجہ(1885–1962) ایک ہندوستانی وکیل، ماہر تعلیم، معاشرتی مصلح اور مجاہد آزادی تھے جو شمالی ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے تاریخی شہر علی گڑھ میں پیدا ہوا تھے۔ آپ ایک آزاد خیال مسلمان اور گاندھی جی کے قریبی تھے۔عبدالمجیدخواجہ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی تھی ۔مولویوں نے انہیں اردو، فارسی اورعربی کی تعلیم دی تھی ۔ بعد میں ان کا داخلہ محمڈن اینگلواور میٹل کالج میں کرادیا گیا تھا ۔

عبدالمجید خواجہ کے ہم عصر پنڈت جواہرلال نہر و تصدق حسین شیروانی ،ڈاکٹر سید محمود اور سیف الدین کچلو تھے۔ وہ کچھ دنوں تک نیشنل مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے تھے۔ ان دنوں کانگریس اور خلافت کا ایک ہی پلیٹ فارم تھا۔ گاندھی جی نے خود کئی بار خلافت کے پلیٹ فارم سے تقریر کی تھی۔ خواجہ صاحب کانگریس اور خلافت کے سرگرم رکن بن گئے تھے۔گاندھی جی جب بھی علی گڑھ جاتے تو آپ کے ہی یہاں قیام کرتے تھے۔

 (8)       کیپٹن عباس علی

3جنوری 1920 ءمیں اترپردیش کے بلندشہر ضلع میں قلندر گڑھی خورجہ میں پیدا ہوئے۔وہ بچپن سے ہی سردار بھگت سنگھ کے انقلابی افکار سے متاثر تھے۔ وہ پہلے نوجوان بھارت سبھا اور پھر اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے رکن بنے۔ 1939 ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد آپ دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے اور 1943ءمیں جاپان نے انہیں ملائشیا میں جنگی قیدی بنالیا۔

 آپ نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ذریعہ بنائی گئی آزاد ہند فوج میں بھی شامل رہے اور ملک کی آزادی کے لئے لڑائی لڑی۔ 1945ء میں جاپان کی شکست کے بعد برطانوی فوج نے انہیں امپھال میں جنگی قیدی بنالیا۔ انہیں ملتان کے قلعہ میں رکھا گیا اور پھرکورٹ مارشل کیا گیا اور سزائے موت سنائی گئی لیکن 1946ءمیں عبوری حکومت بن جانے اور ملک آزاد ہونے کے اعلان کی وجہ سے رہا کردیئے گئے۔

کیپٹن عباس علی زندگی بھر سماجی طور سے استحصال کا شکار محروم، غریب اور سماج سے کٹے ہوئے رہنے والے لوگوں کے درمیان کام کرتے رہے اور آزاد ہندوستان میں غریب، کسان اور مزدوروں کے حق کی لڑائی لڑتے ہوئے اور سول نافرمانی کرتے ہوئے 50 سے زیادہ مرتبہ مختلف عوامی تحریکوں میں جیل گئے۔ سال 2009ء میں ان کی آٹو بائیگرافی “نہ رہوں کسی کا دست نگر” راج کمل پرکاش،دہلی نے شائع کیا تھا۔ 94 برس کی عمرمیں وہ 11 اکتوبر    2014 ءکو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

نیتاجی کی 122ویں سالگرہ کے موقع پرسال 23 جنوری2019 کو وزیراعظم نریندرمودی نے دہلی میں لال قلعہ کے اندر بنائے گئے میوزیم کا افتتاح کیا۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ اس میوزیم میں سبھاش چندر بوس، ان کے ساتھیوں اور آزاد ہند فوج سے جڑی چیزیں رکھی جائیں گی۔اس لئےآزاد ہند فوج (آئی این اے) میں کپتان رہے اورمجاہد جنگ آزادی کیپٹن عباس علی کی تصویر قومی راجدھانی، دہلی میں واقع لال قلعہ میں سبھاش چندر بوس اور آزاد ہند فوج کی یاد میں بنائے گئے میوزیم میں نمایاں طور سے لگائی گئی اور انھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

(9)        راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ

راجہ مہیندر پرتاپ یکم دسمبر1886ءکو ہاتھرس  ضلع کی مرسان ریاست اتر پردیش میں پیدا ہوئے  ۔وہ ایک سچے محب وطن ،مجاہد آزادی ،صحافی اور مصلح قوم تھے۔انہیں آرین پیشوا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔انھوں نے اپنی زندگی کو انسانیت اور خاص طور پر ہندوستان کے عوام کو ظلم و جبر سے بچانے میں صرف کی۔علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم رہے وہاں سے فارغ ہونے کے بعدانہوں نے اٹھائیس سال کی عمر میں انگریزی استعمار کے خلاف اپنی سرگرم جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے مولوی برکت اللہ ، مولوی عبید اللہ ، اور دیگر ہندو اور مسلم ہندوستانی بادشاہوں کے ساتھ یکم دسمبر ، 1915ء کو ہندوستان کی آزادی کے حصول کے لئے کابل میں عبوری حکومت کی بنیاد رکھی۔ان کے دل  میں ہندوستان کو آزاد کرانے کی شدید خواہش تھی۔وہ نوجوانی کے دور سے ہی ہندوستانی آزادی کے جنگجوؤں کی تقاریر سنا کرتے تھے اٹھائیس سال کی عمر میں  انھوں نے اپنے خواب کو پورا کرنے اور اپنے ملک اور خطے کو برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزاد کرنے کے لئے بیرون ملک یورپ کا سفربھی کیا ۔انھوں نے ہندوستانی تحریک کی روح اور قلب میں مہاتما گاندھی سے ملاقات کی اور پھر اپنے آزاد ہندوستان کے خواب کے لئے لڑنا شروع کیا ۔ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اپنے لوگوں کے ساتھ مستعد رہے۔ راجہ مہیندر پرتاپ نےطویل  اور نتیجہ خیز زندگی گذارنے کے بعد سن 1979ء میں انتقال ہوگیا۔

وہ مجاہدین آزادی جن کی ولادت علی گڑھ میں ہوئی

(1)        آفتاب احمد خاں

علی گڑھ کے اترولی قصبے کے محلّہ چودھریان کے رہنے والے آفتاب احمد خاں ابن شیر محمد خاں کی ولادت 10 جنوری 1925ء کوہوئی تھی۔انھوں نے مہاتما گاندھی کے ساتھ دیش کی آزادی میں اہم رول ادا کیا تھا۔وہ 10 سال کے تھے تب انگریزوں نے ان کا گھر ڈھا دیا تھا۔اور ان کےکھیتوں میں کھڑی فصل  برباد کردی  تھی۔اس حادثہ نے ان کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر ڈالا ۔اس کے بعد وہ گاندھی جی کے  آندولن سے   جڑ گئے ۔انھوں نے آگرہ میں گدھا پاڑا ریلوے پل کو بم سے اڑا  دیا ۔جیل میں ایک بار انگریزی سپاہیوں نے ان کے ساتھ اتنا تشددکیا کہ ان کے ہاتھ کی ہڈی اور پسلیاں توڑ دیں تھیں پھر بھی  ان کاجذبہ کم نہیں ہوا۔جیل میں قیدیوں کے ساتھ مل کر انھوں نے انگریزی سپاہیوں کو  پیٹا اور جیل سے فرار ہوگئے۔وہ ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارے کے علمبردار تھے۔ آخر کار اس محب وطن  علی گڑھ کے آخری مجاہد آزادی کاانتقال 19 دسمبربروز بدھ 2019ء کوعلی گڑھ میں ہوگیا۔انھیں اترولی کے پرانے رام گھاٹ روڈ پر واقع قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

(2)        امانی سنگھ

امانی سنگھ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی 1857ء کے مجاہد آزادی تھے۔وہ  علی گڑھ  اگلاس کے گہلئو گاؤں کے باشندے تھے۔ان کے پاس ایک گھوڑی تھی  جس کی بہادری  کی کہانیاں آج  بھی اس علاقے میں جس کوْلگسماٗ کہا جاتا ہے بڑے چا ؤ سے سنی جاتی ہیں۔کھیر سے اگلاس جانے والی سڑک پر گہلئو گاؤں میں آج بھی امانی سنگھ کا مجسمہ لگا ہوا ہے۔جس میں انھیں اپنی گھوڑی پر سوار دکھایا گیا ہے۔ان کی گھوڑی  کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ْ امانی مانے تو مانے ،امانی کے کی گھوڑی نہ مانے۔1857ء کے جنگ آزادی کے دوران امانی سنگھ جاٹوں کی رہنمائی کر رہے تھے۔وہ اس علاقے کے باغیوں کا سردار تھے۔امانی سنگھ کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔

(3)        کنور نیتر پال سنگھ

مجاہد آزادی کنور نیتر پال سنگھ نے دیش کی آزادی میں اپنے پورے خاندان کے ساتھ حصہ لیا ۔وہ علی گڑھ کے گاؤں پالی راجاپور کے رہنے والے تھے۔انہوں نے وینوا بھاوے کو اپنے گاؤں بلا کر ْبھودان آندولنٗ میں 200 بیگھہ زمین دان کی تھی۔طلبہ کے بہتر مستقبل کے لئے ْاگرسین انٹر کالجٗ ہردوا گنج کے لئے 100 بیگھہ زمین دان میں دی۔اس طرح انہوں نے اپنی 1200 بیگھہ زمین میں 800 بیگھہ زمین دان دے کر اپنے ملک کے لئےاپنے جزبہ کا اظہار کیا۔

(4)        پنڈت موہن لال گوتم

پنڈت موہن لال گوتم5 اگست 1902ء میں علی گڑھ کے ویر پورا میں پیدا ہوئے ۔وہ کم عمر میں ہی آزادی کی تحریک سے جڑ گئے تھے۔ وہ کاکوری کانڈ میں گرفتار ہوئے اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدد،نمک ستیا گرہ،بھارت چھوڑو آندولن میں  کئی مرتبہ جیل گئے۔

 علی گڑھ کی عمارتوں میں تحریک آزادی کے نقوش

(1)        علی گڑھ پنچایت بھون

علی گڑھ کا  تاریخی پنچایت بھون  شہر علی گڑھ کی تاریخ اورعظمت کو آج بھی بیان کررہا ہے ۔1947ء سے پہلے یہاں مجاہدین آزادی بیٹھا کرتے تھے اور انگریزوں کے خلاف یہاںمنصوبے بنایا کرتے تھے۔ اس لئے اس عمارت پر انگریزوں کی کافی نظر رہتی تھی۔ انوپ شہر روڈ پر واقع ضلع پنچایت کی اس عمارت میں 1942ءمیں بھارت چھوڑو آندولن  کے نقوش آج بھی موجود ہیں ۔یہاں انگریزوں کے خلاف عوام میں غصہ کی آگ جل اٹھی تھی۔اور پورا شہر انگریزوں کے خلاف اترآیا تھا۔ٹھاکر نواب سنگھ چوہان،ٹھاکر صاحب سنگھ تومر،کنور شرینیواس شرما،ٹھاکر شیودان سنگھ،شیو چرن لال شرما اس تاریخی عمارت میں بیٹھا کرتے تھے۔1942ء میں گاؤں گاؤں سے لوگ یہاں آئےاور انھوں نے نعرے بلند کئے کہ اب انگریزوں کو بھارت میں نہیں رہنے دیں گے۔

(2)        برٹش سپاہیوں کا لگایا گیا  کتبہ (کالا جار)

14 دسمبر1857ء کی جنگ آزادی کے دوران  علی گڑھ کے قریب گنگیری کے گاؤں شیر پورا  میں مجاہدین آزادی سے انگریزوں کی جنگ ہوئی تھی۔اس جنگ میں 9 انگریزی سپاہی مارے گئے تھے۔بغاوت کے  وقت دہلی سے 6 ڈریگن گارڈ،9 کوئنسیس رویل بٹالین کے برٹش سپاہی گنگیری بھیجے گئے تھے۔جن کا شیر پورا کے قریب مجاہدین سے مقابلہ ہوا۔مجاہدین نے انھیں مار گرایا۔ یہ خونی جنگ کالی ندی کے پاس لڑی گئی تھی۔برٹش سپاہیوں کے مرنے کے بعد   یہاں کتبہ بھی لگایا گیا تھا۔جس کو کالا جار بھی کہتے ہیں۔

 (3)       اے۔ایم ۔یوعلی گڑھ کا قلعہ

1524ء کے دوران ابراہیم لودھی نے اس قلعہ کی بنیاد رکھی تھی۔مشہور تاریخ داں عرفان حبیب کے مطابق انگریزوں نے 1803ء میں قلعہ پر حملہ کیا تھا۔اس قلعہ پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اس کو چھاونی  بنایا تھا۔فرنچ انجینئرنگ کی مثال یہ قلعہ اپنی مضبوطی کے لئے آج بھی جانا جاتا  ہے ۔برٹش جرنل لیک کی سربراہی میں علی گڑھ پر حملہ کیا گیا تھا۔کئی دن تک لڑائی چلی  اس موقع پر انگریزوں کے بہت سے سپاہی مارے گئے تھے۔جنگ میں مارے گئے سپاہیوں کے نام  انگریزوں نے یہاں علی گڑھ قلعہ میں کتبہ پر نقش  کروائے تھے۔

(4)        شہید کالے خاں بابا کامزار

علی گڑھ کے قریب ہاتھرس  میں رحمت اللہ عرف شہید کالے خاں بابا کا مزار ہے۔ وہ راجہ دیارام کے سپہ سالار تھے۔وہ  کبھی راجہ دیارام کا ساتھ چھوڑ کر نہیں گئے۔راجہ دیارام کے قلعہ پر انگریزوں کی بری نظر تھی۔وہ اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔1857ء میں انگریزوں نے اس قلعہ پر حملہ کیا اور اپنی پوری طاقت لگا دی۔اس حملے میں کالے خاں بابا شہید ہو گئے۔اس کے بعد راجہ نے قلعہ کے دوسرے سرے پر ان کا مزارتعمیر کروایا ۔ ان  کی بہادری کی داستان آج بھی یہ مزار بیان کر تا ہے۔ ہر سال ہندو مسلمان  عقیدت سےمل کر ان کا عرس مناتے ہیں اور مزار پر چادر چڑھاتے ہیں۔

 (5)       علی گڑھ کی جامع مسجد

علی گڑھ بالائےقلعہ (اوپر کوٹ) پر واقع  جامع مسجد اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔یہ ایشیا کی پہلی ایسی مسجد ہے جس میں سب سے زیادہ سونا لگا ہوا ہے۔ اس مسجد کو مغلیہ حکومت کی آخری مسجد کادرجہ حاصل ہے۔اس مسجد کو 300 سال پہلے 1140ھ میں ثابت علی خان بہادر نے  بنوایا تھا۔جنگ آزادی کی تحریک سے اس مسجد کا بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ یہاں1857ء کی جنگ کے دوران بہت سے مجاہدین مسجد  میں جمع ہوتے تھے اور انگریزوں کے خلاف جنگ کی حکمت عملی تیار کرتے ۔مسجد میں ملک کی فلاح و بہبودی  اور سلامتی کے لئے دعائیں ہوتی تھیں۔مولوی عبد الجلیل نے اس وقت انگریزوں سے جنگ کرنے کا فتویٰ دیا۔ہندو مسلمان سب ایک ساتھ انگریزوں کے خلاف  برسر پیکار ہوئے۔اس جنگ میں مولانا امام بخش صہبائی دہلوی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی ،مہاجر مکی، مولانا ڈاکٹر وزیر خان بہاری، مولانا مظفر حسین کاندھلوی، مولانا رضی الدین بدایونی  شہید ہوئے جن کو جامع مسجد علی گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا۔آج بھی ان شہیدوں کی قبریں اندرون مسجد گنج شہیداں میں موجود ہیں جنھوں نے اپنی جان وطن کی محبت میں قربان کر دیں۔

الغرض سر زمین علی گڑھ میں تحریک جنگ آزادی کے بہت سے نقوش جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔جن کی از سر نو بازیافت کرنے کی ضرورت ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ سر زمین علی  گڑھ کے مجاہدین نے تحریک آزادی کے لئے اپنی جو قربانیاں پیش کی ہیں ان کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

حوالہ جات:

(1)        روزنامہ ایشیا ایکسپریس تحریکِ آزادئ ہند خدائی خدمتگار کے بانی خان عبد الغفار خان کی وفات پر مختصر تحریر: ڈاکٹر شاہین فاطمہ زیباؔ (27 جولائی بروز منگل 2021)

/تحریکِ-آزادئ-ہند-خدائی-خدمتگار-کے-بانی/http://asiaexpress.co.in/

(2)        قومی آواز ْمولانا محمد علی جوہرٗ  : عمران خاں میواتی(14 اگست 2017)

https://www.qaumiawaz.com/freedom/freedom4

(3)        مولانا شوکت علی (سیاست دان) مسلمانوں کے عظیم رہنما

شوکت_علی_(سیاست_دان) /   https://ur.m.wikipedia.org/wiki

 مولانا شوکت علی اورتحریک آزادی ہند:فیضان حیدر اودھ نامہ لکھنئو 17 اگست 2018

(4)        حسرت موہانی روزنامہ سیاست ڈیلی:ڈاکٹر امیر علی https://archive.urdu.siasat.com/news

(5)        رفیع احمد قدوائی:ویکیپیڈیا

(6)        راجہ مہندر پرتاپ راجہ مہندرا پرتاپ سنگھ: مارکسسٹ انقلابی جس نے ہندوستان کی آزادی کا بیڑہ اٹھایا:آن لائن پورٹل ْہم سبٗ

https://www.humsub.com

(7)        چودھری خلیق الزماں: ویکیپیڈیا

(8)        ذاکر حسین : ویکیپیڈیا

(9)        شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی: یوم ولادت پر خصوصی پیشکش:علی جاوید

https://www.qaumiawaz.com/poem/poet-of-revolution-josh-malihabadi-special-offer-on-birthday-ali-javed

جوشؔ کی باغیانہ شاعری:اردو ریسرچ جرنل دہلی: http://www.urdulinks.com/urj/?p=2609

(10)      آفتاب احمد:روزنامہ امر اجالا ہندی علی گڑھ:19 دسمبر 2019

नहीं रहे अलीगढ़ के अंतिम स्वतंत्रता सेनानी आफताब अहमद खां, अंग्रेजों को चकमा देने में थे माहिर

(11)      علی گڑھ تاریخ: http: /jobinfoguru.in/अलीगढ़-का-इतिहास-in-hindi

(12)      https://www.etvbharat.com/hindi/uttar-pradesh/state/aligarh/special-story-on-150th-birth-anniversary-of-mahatma-gandhi/up20191001231959705

مہاتما گاندھی اور علی گڑھ

(13)      ماسٹر دلیل سنگھ:ویکیپیڈیا

(14)      آزاد ہند فوج کے ْکیپٹن عباس علیٗ کی تصویر لال قلعہ میں واقع میوزیم کی زینت: قومی آواز(8 نومبر 2019)

(15)      پنڈت موہن لال گوتم: روزنامہ امر اجالا ہندی علی گڑھ 11اگست 2016ء

स्वतंत्रता के कुरुक्षेत्र में अलीगढ़ के ‘मोहन’

(16)      کنور نیتر پال سنگھ:روزنامہ امر اجالا علی گڑھ 9 اگست 2020ء

9 अगस्त: राष्ट्रीय आंदोलन में अलीगढ़ के सपूतों का भी अहम योगदान

علی گڑھ کی عمارتوں میں تحریک آزادی کے نقوش: روزنامہ دینک جاگرن علی گڑھ5 اگست 2018ء

अलीगढ़ में आजादी की जंग के निशान : खामोश इमारतों में जिंदा है क्रांति की अमर कहानी

(17)      شہیدان جنگ آزادی: مرتب ڈاکڑ ضیاء الرحمٰن صدیقی : ناشر چھتیس گڑھ راجیہ اردو اکادمی

(18)      شہیدان آزادی:پی این چوپڑہ :پرنسپل پبلی کیشن آفیسر بیورو فار پروموشن آف اردو ویسٹ بلاک 8 آر کے پورم نئی دہلی

(19)      تاریخ جنگ آزادی ہند 1857ء مصنف سید خورشید مصطفےٰ رضوی: یو پبلشر 5 یوسف مارکیٹ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here