مایوسی کُفر ہے*

Image Source: Freepik

مایوسی کفر ہے اور ہم میں سے بیشتر لوگ مایوسی کے شکار ہیں۔یعنی غیر شعوری طور پر ہم کفر کے حصار میں ہیں۔

 والدین بچوں سے مایوس ہیں اور اساتذہ طلبہ سے۔ قوم قیادت سے مایوس ہے اور قیادت قوم سے۔ ہم اپنے آپ سے مایوس، اپنے ماحول سے، اپنے حال سے، اپنے مستقبل اور اپنی عاقبت سے مایوس ہیں۔

طلبہ پڑھ رہے ہیں لیکن مستقبل کا خوف، بے روزگاروں کی الجھنیں انہیں مایوس کر رہی ہیں اور یہی مایوسی ان کے قدموں کی زنجیر بنتی جا رہی ہے۔

ہم صرف مایوس نہیں ہیں بلکہ مایوسی کو فروغ دینے میں بھی پیش پیش ہیں۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی گفتگو مایوسی سے شروع ہو کر مایوسی پر ہی ختم ہوتی ہے۔

اندیشوں کو حقیقت تصور کر لینا مایوسی ہے۔

اتنا پڑھ کر نوکری نہیں ملی تو کیا ہوگا؟ بچے کی تعلیم پر اتنا خرچ ہو رہا ہے لیکن اگر وہ مقابلہ جاتی امتحان نہیں نکال سکا تو کیا ہوگا؟ ملازمت کے لیے انٹرویو دینے جا رہا ہوں، تیاری تو اچھی ہے لیکن پیروی نہیں ہے شاید میرا انتخاب مشکل ہو جائے۔

اپنی آدھی ادھوری کوششوں کے نتائج کا خود ساختہ تصور مایوسی ہے۔ بد اعتمادی اور کم اعتمادی، مایوسی ہے۔ ایمان کی کمزوری کا دوسرا نام مایوسی ہے۔ مایوسی کفر ہے اور ایمان کفر کی ضد ہے۔ یعنی ایمان اور مایوسی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔

مایوسی کفر ہے اور کفر کا انجام جہنم ہے۔ یقین ایمان ہے اور ایمان کی جزا جنت ہے۔ یعنی مایوسی جہنم ہے اور یقین و اعتماد جنت۔

مایوسی سے امید کا سفر، جہنم سے جنت کا سفر ہے۔ کسی مایوس انسان کو مایوسی کے حصار سے نکالنا عظیم عبادت ہے۔ یہ عبادت خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے۔ ایک گنہ گار اپنے گناہوں پر نادم ہے۔ اس کے گناہوں کی فہرست کا ہر عنوان جہنم کی طرف لے جانے والا ہے۔ صاحبان جبہ و دستار اس کی عاقبت کا فیصلہ دنیا میں ہی کر چکے ہیں لیکن اچانک ایک آواز مایوسیوں کی بلند و بالا عمارت کو گرا کر خاک کر دیتی ہے:

“إن رحمتي غلبت غضبي” میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ صرف اس وجہ سے ناکام ہیں کہ ہم نے مایوسی کو خود پر غالب کر لیا ہے۔

انجام کا اختیارِ کل اپنے پاس رکھنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور خواب کو جب تعبیر نہیں ملتی ہے تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں. اگر ہم انجام کے اختیارِ کل سے دستبردار ہو جائیں تو مایوسی کے تمام اندیشے ختم ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں انجام اچھا ہو تو ہم شکر بجا لائیں گے اور انجام ہماری سوچ کے مطابق برا ہو تو ہم صبر کریں گے۔ دونوں صورتوں میں صاحبان ایمان کے لیے بڑے وعدے ہیں۔ مایوس روحوں کے لیے نہ تو خوش آئند انجام ہے اور نہ کوئی وعدہ۔ ان کے حصے میں محرومیاں ہی محرومیاں اور اذیت ہی اذیت ہے۔

اللہ مایوسی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here