مولانا ابولکلام آ زاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ آپ بیک وقت ایک شاعر، ادیب، صحافی، مقرر، سماجی کارکن، با شعور سیاسی لیڈر، مفسر قرآن اور جیّد عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ جدید علوم کے زبردست عالم بھی تھے۔
آپ کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی. ابتدائی تعلیم والد محترم سے حاصل کی اور اعلی تعلیم کی غرض سے جامعہ از ہر کا رخ کیا۔
مولانا کے ادب کا یہ حال تھا کہ پڑھنے والا آپکے الفاظ میں گم ہوجاتا اور اس پہ ایسا سحر طاری ہوتا کہ وہ من و عن ہر چیز قبول کر لیتا۔ نیاز فتح پوری مولانا کے بارے فرماتے تھے:
“مولانا ! آپ کا اسلوب بیان مجھ سے تو وداع ِجاں چاہتاہے۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو میں ھل من مزید کہتارہوں گا۔”
بحیثیت مفسر آپکی تفسیر “ترجمان القرآن” آپکا عظیم علمی شاہکار ہے جسکا اندازہ سورہ فاتحہ کی تفسیر سے واضح ہوجاتا ہے۔ خود مولانا کے بقول کہ یہ قرآن کریم کا عطر اور نچوڑ ہے ۔
آپ بحیثیت شاعر بھی اپنی شاعری میں الگ پہچان کے حامل ہیں۔ اشعار کا مجموعہ کوئی ایسا نہیں ہے جو شائع ہوسکا ہو مگر آپکی کچھ نظمیں ہیں جن سے آپکا آپکی قوم کے تئیں فکر اور درد نمایاں ہوتا ہے۔ کچھ نعتیہ اشعار یوں ہیں:
تاریک شب میں آپؐ نے رکھا جہاں قدم
مہتاب نقش پا سے وہاں روشنی ہوئی،
میں افصح العرب کا ثنا گو ہوں دوستو!
کیونکر نہ ہو سخن میں فصاحت بھری ہوئی۔
آزادی کے فورا بعد جامع مسجد دہلی میں عیدالاضحی کے موقع پر اکتوبر ۱۹۴۷ میں ایک تقریر کی تھی۔ جس نے بھی اسکو سنا یا پڑھا وہ رو دیا اور اس سے لوگوں میں خود اعتمادی پیدا ہوئی جو کہ ختم ہو گئی تھی۔
اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کلکتہ سے پندرہ سال کی عمر میں لسان الصدق نامی جریدےے کے مدیر ہونے کی حیثیت سے شروع کیا اور سال ۱۹۱۲ میں جب آپکی عمر ۲۰ سال تھی “الہلال” اخبار کا آغاز کیا۔ اس اخبار کی سب سے اہم اور بڑی خاصیت یہ تھی کہ یہ پہلا تصویر کے ساتھ آنے والا اخبار تھا اور اسمیں انگریز مخالف پالیسیوں پر بکثرت مضامین شائع ہوتے تھے۔ انگریزوں کی جانب سے اس اخبار کی پابندی کے بعد “البلاغ” شروع کیا۔ ان اخبارات کا اصل مقصد ملک کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد کا فروغ تھا۔
۱۹۲۰ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیین میں آپ کا نام درج ہوا۔ آج اس ادارےکا گیٹ نمبر ۷ آپکے نام سے موسوم ہے۔
۱۹۲۳ میں انڈین نیشنل کانگریس کے سب سے کم عمر صدر منتخب ہونے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے۔
۱۹۳۱ میں دھرسنا ستیا گرہ کے بھی اہم کارکن رہے اور اسی اثنا قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار ہوئے ۔ آپکی اہم تصانیف “غبار خاطر” ایک اہم تصنیف ہے جسکو آپ نے قلعہ احمد نگر کی قید کے دوران لکھا۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا آزاد ہندوستان کے وزیر تعلیم بنائے گئے۔ کم و بیش ۱۱ سال کی مدت تک اسی عہدہ پر فائز رہے۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن جسکے تحت تمام سرکاری یونیورسٹی اور ادارے کام کرتے ہیں،آپکا سب سے اہم کارنامہ رہا ہے۔
۱۹۹۲ میں مولانا آزاد کو بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا گیا۔
۲ فروری ۱۹۵۸ کو یہ عظیم ہستی اپنے مالک حقیقی سے جا ملی اور جسد خاکی نے اردو بازار جامع مسجد دہلی کے احاطےمیں جگہ پائی۔