مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں دینیات کے طلباء کے لیے ماحولیاتی علوم کی تعلیم

از

ڈاکٹر فائزہ عباسی

حسین احمد امینی

ماحولیاتی بحران، موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی میں اضافہ کے مد نظر حکومت ہند نے عدالت عظمی کے ایک اہم اور تاریخی فیصلہ کے تحت ۱۹۹۱ میں یو جی سی کے ذریعہ تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انڈر گریجویٹ کورسز میں ماحولیاتی علوم کی تعلیم کو لازمی قرار دیا تھا۔

 یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا اور گزشتہ دہائی میں اسکی پیروی تمام حلقوں میں دیکھی گئی۔ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں بھی اس کا مکمل نفاذ کیا گیا اور انڈر گریجویٹ جماعتوں کے طلبا و طالبات کو بی اے، بی ایس سی اور بی کام وغیرہ کے تیسرے سیمیسٹر میں ماحولیاتی علوم کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔  اس لازمی پرچہ (برائے صلاحیتی اضافہ) کا امتحان بھی ہوتا ہے جسکے نمبر کی شمولیت گرانڈ ٹوٹل میں کی جاتی ہے جس سے جماعت کے ٹاپر کا انتخاب ہوتا ہے۔ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں یہ سلسلہ بدستور گزشتہ ایک دہائی سے زائد سے جاری و ساری ہے اور ہر سال تقریباً ۳۰۰۰ طالب علم ماحولیاتی معلومات اور ماحول کی تحفظ کے فکر سے معمور ہوکر دیگر شعبہ ہائے زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔

اس پرچہ میں بنیادی طور پر چھ مضمون شامل کیے گئے ہیں جس سے ماحولیاتی مطالعہ کے تمام پہلوں کا احاطہ ہوتا ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ یہ ایک کثیر جہتی مضمون  ہے اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات مختلف مضامین کے پڑھنے اور لکھنے والے ہوتے ہیں۔ معلومات پیچیدہ اور جدید تکنیکی سائنس کی نہیں ہیں جس سے کہ وہ طالب علم جنہوں نے اسکول یا مدرسوں کی جماعتوں میں سائنس نہ پڑھی ہو انکی دل چسپی بھی اس مضمون میں پیدا ہو سکے۔

 مدرسہ اور دینیات کے طلباء ماشاء اللہ بہت دلچسپی سے اس مضمون میں حصہ لیتے ہیں اور ماحولیات کو اسلام کے تناظر میں بھرپور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل اسلام ایک فطری اور معتدل مذہب ہے۔ قرآن کریم میں ہے وکذلک جعلنا کم اُمَّۃً وسطاً اور (مسلمانوں) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایاہے۔(البقرۃ: ۱۴۳)

 جس طرح اسلام ایک مکمل نظام اور ضابطہ حیات ہے اسی طرح ماحولیاتی تحفظ کے سلسلہ میں اسلام کی واضح تعلیمات ملتی ہیں چاہے وہ قدرتی وسائل کے استعمال میں اعتدال کی تعلیم ہو، آبی وسائل کی حفاظت کا درس ہو، شجر کاری کی ترغیب ہو، صفائی و ستھرائی کا حکم ہو، حفطان صحت کی تاکید ہو یا پھر دیگر جانوروں کے حقوق کی بات ہو الغرض اسلام نے ماحولیات پر ایک واضح اور روشن راستہ دکھایا ہے۔

 قدرتی وسائل کے استعمال میں ہمیشہ اعتدال کا دامن پکڑے رہنے کی تاکید فرمائی ہے قرآن کریم میں ہے۔

وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا (الاعراف ۳۱) کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو۔

اسی طرح دوسری جگہ ہے

وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ )انعام ۱۴۱) اور اسراف نہ کرو وہ اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

اسی طرح آبی وسائل کی حفاظت اور بے جا اسراف سے بچنے کا بھی حکم دیا ہے پانی کے بارے میں قرآن کریم میں ہے وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (سورۃ الانبیاء ۳۰)

 اور پانی سے ہر جاندار چیز پیدا کی ہے۔

پانی کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے کرہ ارض پر تین حصہ پانی اور ایک حصہ خشکی رکھا۔ ہمیں پانی دریاؤں، ندیوں، نہروں، جھیلوں، تالابوں، کنوؤں سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے جس کے پیش نظر اسلام کی تعلیم ہے اسے خواہ مخواہ ضائع نہ کیا جائے۔

آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ :

اس امت میں کچھ لوگ ہیں جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کرینگے (ابی داؤد حدیث ۹۴)

اسی طرح دوسری جگہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا تاکہ آبی آلودگی سے بچا جا سکے۔

 تم میں سے کوئی اس پانی میں پیشاب نہ کرے جو ٹھہرا ہوا ہو پھر اس میں غسل کرے (بخاری ۲۳۹)

اسلام نے آبی آلودگی اور بے جا اسراف سے بچنے کی خوب تاکید فرمائی ہے حدیث میں یہاں تک ہے کہ اگر سمندر کے کنارے بھی وضو کیا جائے تو اس میں اسراف سے کام نہ لیا جائے۔

شجر کاری جو فضائی آلودگی کم کرنے کا ذریعہ اور ماحولیاتی بحران کو اعتدال پر لانے کا اہم جز ہے اس کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے۔

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا ۚ (انعام ۹۹) اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر ہم نے اس کے ذریعے ہر قسم کی کونپلیں لگائیں۔ ان (کونپلوں) سے ہم نے سبزیاں پیدا کیں جن سے ہم تہہ بہ تہہ دانے نکالتے ہیں۔

یہ آیت سبزہ زار کے اسباب پیدا کرنے کی طرف توجہ دلا رہی ہے۔

نیز شجرکاری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر کوئی مسلمان کسی درخت کا پودا لگاتا ہے اور اس درخت سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو لگانے والے کے لیے وہ صدقہ ہوتا ہے۔ (کتاب الادب بخاری ۲۰۱۲)

مندرجہ بالا حدیث سے شجر کاری کی ترغیب ملتی ہے۔

صفائی ستھرائی کے بارے میں قرآنِ کریم میں بہت ہی اچھے انداز میں تعریف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۭوَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ ١٠٨؁ (سورہ توبہ ۱۰۸)

اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں، اور اللہ پسند کرتا ہے پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو۔

اسی طرح احادیث میں ہے کہ صفائی ستھرائی و پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔ الطھورنصف الایمان یا پھر النظافۃشطرالایمان پاکی ایمان کی شرط ہے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری حدیث میں یہ بھی ہے کہ نظفوا أفناء کم اپنے صحن کو صاف رکھو۔ ان احادیث سے صفائی ستھرائی و پاکیزگی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے جو ماحولیات کا اہم جز ہے۔

ماحولیاتی علوم میں ایک اہم چیز جانوروں کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کرنا ہے اسلام نے اس کو بھی تشنہ نہ رکھا اور فرمایا کہ جانوروں کو بغیر کسی وجہ سے قتل نہ کرو اپنا نشانہ ان پر لگا کر تیر اندازی کا تختہ مشق نہ بناؤ۔ ان کے ذبح کے قوانین بھی بتائے اور یہاں تک یہ بات ارشاد فرمائی کہ پرندے کو تفریحاً قتل نہ کیا جائے اگر ایسا کرے گا تو قیامت میں ماخوذ ہوگا۔ (سنن نسائی)

الغرض اسلام نے ماحولیات پر واضح تعلیمات دے کر ایک بہترین شہری اور فائدہ مند انسان بننے کی تاکید کی ہے اگر تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو دنیا کو بہت سے خطرات سے بچا سکتے ہیں اور ایک صحت مند بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔

 اس پس منظر میں دینیات کے طلباء و طالبات کو دی جانے والی تعلیم ماحولیاتی علوم اور اخلاقیات کے لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ دینی فکر سے روشن اذہان و قلوب میں جب سائنسی علوم کا اشتراک ہوتا ہے تو اس باہمی اشتراک سے ایک مکمل عالم کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان طلبا و طالبات سے مستقبل میں دعوتِ دین کی خدمات کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ پر بیداری کی خدمات کی بھی امید لگائی جاسکتی ہے ان طلباء سے جب یہ دریافت کیا گیا کہ آنے والے وقتوں کے ایک نمایاں اسلامی رہنما کی حیثیت سے جو انھوں نے اس انڈرگریجویٹ کورس میں ماحولیاتی علوم کا مطالعہ کیا اور از حد روشن خیالی کی سعی مبارکہ سے دوچار ہوئے تو اسلامی نظم و ضبط اور اخلاقیات برائے کرہ ارض میں کچھ مشترکات ملی ہوں گی اور یہ کہ ماحولیاتی بحران اور موسمی تبدیلی کے تناظر میں یہ حقائق واضح ہونے کے بعد کیا فطرت کے تحفظ کے اصولوں کو دعوت و تبلیغ اسلام کے نیک کام میں جگہ دینے کی تحریک ملی تو جواب نفی میں کسی کا نہیں ملتا۔

تخلیق کا ماحولیاتی توازن، حیاتیاتی تنوع کی سا لمیت میں وحدانیت، انسان کا زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار، فضول خرچی کی مذمت کرنا، پانی کی بچت، حفظانِ صحت، صفائی ستھرائی، لالچ سے پرہیز اور اس کے نمونے، مقدس نوع و حیاتیات، مقدس مقامات، شجر کاری ایک صدقہ، جانوروں کے حقوق، ذبح کے قوانین، اصول مند اور محدود شکار، پائیدار ترقی کے لیے مساوی وسائل کا اشتراک، سمجھدار پیداوار، کی سٹون نوع اور خوراک، ابتداء و ارتقاء اور صنفی مساوات کے اہم موضوعات پر ایک مکمل سیمیسٹر کے دوران تعلیم حاصل کرنے کے بعد بلا تفریق طلباء اور طالبات کا اس رائے پر متفق ہونا قابلِ غور ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کا مقصدِ عظیم دینِ اسلام کی تعلیمات سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انڈر گریجویٹ جماعتوں میں سال درسال یہ تعلیمات دی جا رہی ہیں مگر یہ دیگر جامعات کے بمقابلہ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں اس مضمون کی تعلیم کا شرف یہ ہے کہ اس سے ایسے علماءِ دین بھی پیدا ہوں گے جن کی فکر ماحولیاتی تحفظ کے کردار کی نشو نما کے ضوابط سے آراستہ و پیراستہ ہوگی۔

 آج کے مشینی دور میں ماحولیاتی تحفظ کا مقابلہ صریح طور پر قدرتی وسائل کے استحصال پر مبنی ترقی سے ہے جو دنیا میں فضائی آلودگی، موسمی تبدیلی اور قدرتی حیاتیات کے حراس کے لیے ذمہ دار ہیں ایسے میں ازالہ کے اقدام جہاں حکومتوں۔ بین الاقوامی تنظیموں اور سرمایہ داروں کو اٹھانے ہیں وہیں عوام الناس میں ماحولیاتی اخلاقیات کو بیدار کرنا ضروری ہے۔ تاہم ان میں برتاؤ کی چھوٹی بڑی تبدیلی آسکے اور پانی، توانائی اور دیگر وسائل کا ضیاع گناہ سمجھ کر نہ کریں، پاکی و نظافت کے ایمان کے لیے ماحولیاتی آلودگی سے گریز کریں اور چرند پرند، نباتات، اشجار کی حفاظت صدقہ جاریہ کے ثواب کے لیے کریں۔ اس کورس میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے دینیات کے طلباء و طالبات دعوتِ دین و تبلیغ کے ذریعہ اس امر کے لیے کمر بستہ بھی ہیں اور دینی ذمہ داریوں کے تحت ان کے قلوب راضی بھی ہیں، جو ایک خوش آئند بات ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here