آج اس تصویر پر میری نظر پڑی، خیال آیا کہ اس سے بہتر بھی کوئی تصویر ہوگی جو چیخ چیخ کر اس آیت کی تشریح کر رہی ہو کہ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم” سورہ: 95 آیت: 4
(بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت/شکل و صورت میں پیدا کیا)۔
یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کہ “تقویم” کے لفظی معنی کسی چیز کی بنیاد درست کرنے کے ہیں۔احسن تقویم سے مراد یہ ہے کہ اس (انسان) کی فطرت کو بھی دوسری مخلوقات کے اعتبار سے احسن بنایا گیا ہے اور اس کی جسمانی ہیئت اور شکل و صورت کو بھی دنیا کے دوسرے جانداروں سے بہتر اور حسین بنایا گیا ہے۔
روز مرّہ کی زندگی میں ہم مختلف لوگوں سے ملتے جلتے ہیں جو کہ اپنی الگ بناوٹ، الگ رنگ اور الگ مزاج رکھتے ہیں اور ہم ان کی ظاہری شکل و صورت ہی کی بنا پر بسا اوقات بغیر ان سے کلام کئے ان کے متعلق ایک تأثر قائم کر لیتے ہیں اور کبھی کبھی اُلٹا سیدھا خطاب بھی دے ڈالتے ہیں۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم لوگوں کو ان کے مزاج، رنگ اور ان کی بناوٹ کے ساتھ قبول نہیں کرتے بلکہ ہر ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ کالے کو گورے پر فوقیت، پتلے کو موٹے پر فوقیت، مزاح کو سنجیدگی پر فوقیت۔ حالانکہ ہمیں اس چیز پر غور کرنا چاہیے کہ خالقِ کائنات نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات سے احسن بنایا ہے تو ہر شخص اپنی جگہ اپنی صفت اور بناوٹ کے اعتبار سے بہترین ہے۔ یہ صرف ہماری کمزوری ہے جو ہم ایک کو رنگ اور بناوٹ کے اعتبار سے ترجیح دیتے ہیں اور دوسرے کو معیوب قرار دیتے ہیں۔ جبکہ خالقِ کائنات نے انسانوں کے اندر ترجیح کی بنیاد بھی طے کردی ہے اور صاف کہا ہے:
“اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہ اَتْقَاکُمْ”
(سورہ الحجرات، آیت: 13)
ترجمہ: بلاشبہ تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔
لہذا یہ بات قابلِ گرفت ہے کہ ہم ظاہری چیزوں کو معیار بنا کر کسی کے بارے میں اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ کریں۔
ہم کیوں کسی کو لنگڑا، کسی کو اندھا، کسی کو کانا، کسی کو کالا کہہ کر اس کی دلآزاری کرتے ہیں؟ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں صحیح ہیں اور کہاں غلط۔ کیا فقط ہمارا انسان ہونا ہی کافی ہے یا اس میں انسانیت کی صفت بھی پائی جانی چاہیے؟
بقول شاعر:
مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا ہوا
آنکھیں تلاش کرتی ہیں انساں کبھی کبھی۔
اس لئے ضروری ہے کہ ہم خدائے پاک کے دئے گئے معیار پر ہی کسی چیز کا فیصلہ کریں اور دوسروں کے بارے میں بدگمانی اور غلط خیالی سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔