کنواں

یہ رات کا پچھلا پہر تھا، جب میں گاؤں سے باہر جانے والی پگڈنڈی پر دھیرے دھیرے چلتا ہوا اس پرانے کنویں کے پاس سے گزرا، جو اس علاقے میں کبھی میٹھے پانی کا واحد کنواں ہوا کرتا تھا- اب اس کنویں سے پانی تو نہیں نکلتا تھا، ہاں البتہ راہ گیر یہاں آتے جاتے ہوئے اس میں تجسس سے جھانکتے ضرور تھے- پرانے مکینوں سے سنا تھا کہ کنویں کی تہہ میں ایک سیاہی مائل پتھر کے نیچے کچھ خزانہ دفن ہے، جسے قدیم وقتوں میں یہاں سے ہجرت کرنے والے چھپا کر گئے تھے- مگر ایک زمانہ گزرنے کے باوجود کسی کو یہاں سے وہ خزانہ نہیں مل پایا تھا- دور دور تک خاموشی نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے اور چاند اپنے پورے جوبن پر تھا- کہتے ہیں چاندنی رات میں ویرانوں میں پریاں اترتی ہیں، پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں، مگر یہاں سوائے خاموشی اور چاندنی کی دودھیا مگر دلفریب روشنی کے سوا کچھ نہیں تھا- میں نے یہاں سے گزرتے ہوئے بے ساختہ کنویں کی منڈیر سے نیچے جھانکا تو پتھروں کے ڈھیر کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیا- میں آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ مجھے محسوس ہوا جیسے تہہ میں پڑے ایک پتھر پر کچھ چمک رہا ہے- میں نے غور سے دیکھا تو یہ کسی بیگ یا بستے پر لگے ہوئے دھاتی بکل جیسا تھا جس پر چاند کی روشنی منعکس ہو رہی تھی- میں نے آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا اور وہیں کھڑے کھڑے اس تھیلے کو نکالنے کی ترکیب سوچنے لگا۔

میرے دادا بتاتے تھے کہ یہ کنواں ان کی پیدائش سے بھی پہلے کا تھا اور جب وہ جوان تھے تو اکثر یہاں سے پانی بھر کر لایا کرتے تھے- ایک مرتبہ پانی بھرتے ہوئے ایک سونے کا سکہ بھی ان کے ہاتھ لگا تھا- دادا نے مجھے یہ بھی بتایا کہ بڑے کہتے تھے، “جب یہ کنواں خشک ہو گا تو پھر گاؤں کی ہریالی اور دلکشی میں کمی واقع ہو جائے گی، اور گاؤں میں مصنوعی پن پیدا ہو کر ہر اک چہرے پر اپنے نشان چھوڑ جائے گا”- اب اس کنویں کو خشک ہوئے زمانہ بیت چکا تھا- میں نے اچانک سامنے نظر دوڑائی تو ہر شے اجنبی سی محسوس ہونے لگی- میں نے ایک لمبا سانس لیا تو قریب کی فصلوں میں کیا گیا تازہ تازہ سپرے نتھنوں کو جلاتا ہوا جیسے دماغ تک پہنچ گیا- مجھے گاؤں کے کسانوں کی بات یاد آگئی، وہ کہتے ہیں کہ اب زمینوں میں زرخیزی نہیں رہی، فصل میں ذائقہ نہیں رہا اور پیداوار میں برکت نہیں- شاید گاؤں کے باسیوں نے کنویں کو سوکھا دیا تھا اس لیے یہ سب انھیں دیکھنا پڑ رہا تھا- کون جانتا ہے…. میں نے سر جھٹکا اور پھر دوبارہ کنویں میں پڑے اس تھیلے پر نظریں گاڑ دیں- نہ جانے یہ کس کا تھیلا تھا، جو جان بوجھ کر یہاں پھینکا گیا تھا یا پھر کسی سے غلطی سے گر گیا تھا، یہ کب سے یہاں پڑا تھا، دن میں کسی کی نظر کیوں نہیں پڑی اس پر…..کئی سوالات میرے ذہن میں تھے، مگر میں نے اپنی پوری توجہ اس تھیلے پر مرکوز کی ہوئی تھی- میرے پاس اگر کوئی لاٹھی ہوتی تو شاید میں اس کے ذریعے تھیلے کو نکال لیتا، مگر اس وقت میں خالی ہاتھ تھا- خیر کنواں چونکہ زیادہ گہرا نہیں تھا، میں نے اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس میں اترنے کا فیصلہ کر لیا- اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میں کنویں کی منڈیر سے نیچے اندر لٹکا اور پھر پرانے بوسیدہ پتھروں پر آہستہ آہستہ پاؤں رکھتے ہوئے نیچے اترنے لگا- ابھی موسم کچھ سرد ہی تھا اس لیے مجھے کسی سانپ یا بچھو کے نکلنے کی توقع نہیں تھی- ہاں البتہ مجھے خدشہ تھا کہ یہ کنواں بہت قدیم ہے اور کسی بھی وقت میں اس میں دب سکتا ہوں- لیکن میرا تجسس مجھے بے خوف بنا رہا تھا-

رات ڈھل رہی تھی، میں کسی بھی صورت دن نکلنے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا- کچھ ہی دیر میں، میں کنویں کی تہہ میں اتر چکا تھا- میں نے جلدی سے اس بکل کو پکڑا جو چاند کی روشنی میں کسی لعل کی مانند چمک رہ تھا، جیسے ہی میں نے وہ بکل کھینچا، پورا تھیلا پتھر کے نیچے سے نمودار ہو گیا- سیاہی مائل یہ تھیلا زیادہ پرانا نہیں لگ رہا تھا- میں نے جلدی سے اسے اپنے کاندھوں پر ڈالا اور کنویں سے باہر نکل آیا- رات کا سحر اپنے عروج پر تھا- میں نے تھیلا پکڑا اور پگڈنڈی کے ایک جانب پڑے بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر تھیلے کو کھولا- جیسے ہی تھیلا کھلا، کچھ ورق اس میں سے نکل کر نیچے زمین پر گر گئے- میں نے جلدی سے وہ ورق اٹھائے تو پہلے ورق پر “چاندنی رات کا سحر” لکھا ہوا دیکھائی دیا- میں نے جلدی سے دوسرا ورق دیکھا تو کچھ یوں لکھا ہوا دکھائی دیا،
“میری ہم راز! تم جانتی ہو کہ چاندنی رات قدیم وقتوں سے ہی انسان کو اپنے سحر میں جکڑتی چلی آئی ہے- شاعر، فلسفی، دانش ور، مصور اور مسافر ہمیشہ چاندنی رات کے اسرار جاننے کی جستجو کرتے رہے ہیں- ہر کسی نے اپنے اپنے انداز میں اسے کبھی کیفیت، کبھی منظر، کبھی راز اور کبھی احساس کی صورت میں بیان کیا- تم نے کبھی سوچا ہے کہ جیسے یہ چاندنی، اندھیرے اور روشنی کا امتزاج ہوتی ہے- اسی طرح ہی انسانی زندگی ہے- اندھیروں اور روشنیوں سے بھرپور- لیکن ہم انسان فقط اندھیروں کو ہی محسوس کرتے ہیں- مگر یہ چاندنی رات ہمیں باور کرواتی ہے کہ زندگی میں اندھیرا بھی ہے اور روشنی بھی، سو زندگی جینے کے لیے ان دونوں کو یکساں قبول کرنا ہو گا- میں تمہیں بتاؤں یہ چاندنی رات، زندگی اور موت کا استعارہ بھی ہے- چاند کا گھٹنا اور پھر بالکل غائب ہو جانا ہمیں سکھاتا ہے کہ یہاں ہر شے عارضی ہے- یہ بات ہمیں خوف زدہ بھی کرتی ہے- دوسری جانب چاندنی ہمیں بتاتی ہے کہ گو یہاں سب عارضی ہے، مگر جو جتنے وقت کے لیے موجود ہے، اسے چمکنا چاہیے، اسے بھرپور طریقے سے جی کر اپنے اردگرد کو روشن کرنا چاہیے- میری ہمراز! میں تمہیں بتاؤں کہ یہ چاندنی رات ہمیں فطرت سے منسلک کرتی ہے- ہم چاند کو دیکھتے ہیں، آسمان پر نگاہ ڈالتے ہیں، ستاروں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کائنات کی وسعت کا علم ہوتا ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر شے آپس میں مربوط ہے اور ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے-

اس سے آگے ورق خالی تھا- میں نے جلدی سے دوبارہ تھیلے کو ٹٹولا تو اس میں سے چند ورق اور ہاتھ لگے- ان پر تحریر کچھ دھندلی تھی لیکن باآسانی پڑھنے لائق تھی-

تھیلے سے نکلنے والے اس ورق پر لکھا تھا، “میری ہمراز! میں تمہیں چاندنی رات کے بارے میں بتا رہا تھا- یہ روشن رات ایک استعارہ ہے، جو ہمیں زندگی، موت اور فطرت سے ہم آہنگی کے بارے میں بتاتا ہے- تم جانتی ہو کہ یہ چاندنی رات ہماری ذات میں چھپے بے شمار احساسات اور جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے- تم کتابیں بہت پڑھتی ہو، یقیناً تم نے مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار شیکسپیئر کی ایک تحریر میں پڑھا ہو گا کہ چاندنی رات، محبت کی بدلتی کیفیات کی علامت ہے- جیسے چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے، اسی طرح ہمارے اندر کیفیات کا اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، جو محبت کی اس محورانہ نوعیت کا عکاس ہے- اسی طرح تم نے کولرج کی ایک نظم میں پڑھا ہو گا کہ چاند، زندگی کے عارضی پن کی علامت ہے- اور تم نے شیلے کو بھی ضرور پڑھا ہو گا، جو اپنی ایک تحریر میں کہتا ہے کہ چاند ایک لاحاصل خوبصورتی اور یگانیت کی علامت ہے-

اب رات تیزی سے ڈھل رہی تھی اور میں ان اوراق میں کھویا ہوا اردگرد سے بے خبر تھا- نہ جانے یہ کس نے لکھے تھے، اس کا مخاطب کون تھا، اور لکھنے کے بعد اس نے یہ سب اس ویران کنویں میں کیوں پھینک دیا تھا۔۔۔۔۔؟ میں نے تھیلے میں ہاتھ ڈالا تو ایک ورق اور ہاتھ میں آیا جس پر لکھا تھا،
“چاندنی راتوں کے ہمسفر! تم خوب جانتے ہو کہ چاند کا سحر کیا ہوتا ہے- چاندنی جب چھم چھم کرتی زمین پر اترتی ہے تو جہاں اندھیر نگریاں روشن ہونے لگتی ہیں، وہیں دلوں میں چھپی محبت کی لو بھی تیز ہو جاتی ہے- تم یہ بھی جانتے ہو کہ ان راتوں میں کسی صحرا کی نرم ریت پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دور تک خاموشی سے چلتے چلے جانا کیا ہوتا ہے اور اس سمے دل کی دھڑکن کا ایک ہی رفتار سے چلنا کیسا دلکش ہوتا ہے- اے میری دھڑکنوں کے واقف کار! تمہیں دیکھے زمانے بیت گئے۔۔۔چاند جیسے ہی اندھیروں کے شکنجے میں آیا تم خوفزدہ ہوگئے- تم نے اندھیرے کو لازوال سمجھ لیا- تم دیوں کی تلاش میں کہیں دور نکل گئے- حالنکہ کہ یہ تم ہی تو کہتے تھے کہ دیے کی کیا اوقات ہے، وہ تو ایک پھونک سے ہی بجھ جاتا ہے- لیکن جوں ہی چاند اندھیرے کی لپیٹ میں آیا تم نے بھی دیوں کی جانب رخ پھیر لیا- اندھیرا سدا تو نہیں رہتا،چاند ہمیشہ تو نہیں چھپتا اور چاندنی نے ہر حال میں زمین پر اپنا سحر پھونکنا ہوتا ہے- میرے چاندنی راتوں کے ہمسفر! چاند اب بھی نکلتا ہے- گو تم پاس نہیں، مگر اس کی روشن آنکھ میں تمہارا عکس موجود ہے- اب یہ چاند مجھے اس عکس سے بہلاتا ہے، چاندنی میرا ہاتھ تھام کر مجھے سہلاتی ہے اور پھر میرے دل میں آتا ہے کہ آخر دیے کب تک روشن رہ سکیں گے۔۔۔اندھیروں سے کوئی کب تک ڈر سکتا ہے۔۔۔ تم لوٹ آؤ گے- چاند مجھے اب بھی تمہارا حال بتاتا ہے،تمہاری اداسیوں کی خبر دیتا ہے اور تمہاری بے چینیوں کا حال سناتا ہے۔۔۔ میں جب پوچھتا ہوں کہ کیا اسے میری خبر بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔تو وہ خاموش ہو کر بادلوں کی چادر اوڑھ لیتا ہے”-

اس آگے ورق خالی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے الٹا کر دوسری جانب سے دیکھا تو مدھم سی تحریر نظر آئی، ابھی پڑھنے ہی لگا تھا کہ میرے تکیے کے پاس رکھی گھڑی کا الارم زور سے بج اٹھا- میری آنکھ کھلی تو سورج کی کرنیں کھڑکی سے اندر آ کر پورے کمرے کو روشن کیے ہوئے تھیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here