کچھ وصل کی مستی نہ کوئی تازہ جنوں ہے

کچھ وصل کی مستی نہ کوئی تازہ جنوں ہے
جو کچھ ہے فقط ان کی نگاہوں کا فسوں ہے

پوچھوں ہوں کہ کیونکر ہے ترے پیار کا انداز
لب، لب سے ملا کر کے وہ کہوے ہے کہ یوں ہے

اس سوکھے ہوئے پھول کو بس پھول نہ کہیو
یارا یہ مرے دل کی تمناؤں کا خوں ہے

جو لب کہ نہ کھلتے تھے، ترے مدح سرا ہیں
جو سر کہ نہ جھکتا تھا، ترے آگے نگوں ہے

جو دل کہ نہ مچلا تھا حسینوں کی ادا پر
اک بت کی محبت میں پریشان و زبوں ہے

کاظم یہ سخن اپنی حقیقت کا ہے غماز
ہر شعر جو کہتا ہوں، وہ آوازِ دروں ہے

کاظم رضوی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here