چھپی ہوئی ہوں میں ایک کونے میں اور چپکے سے دیکھتی ہوں عجیب منظر
میں دیکھتی ہوں درخت کو جو لگا ہوا ہے نہ جانے کتنے برس سے لیکن کبھی بھی اتنا ہرا نہیں تھا
میں دیکھتی ہوں صحن کو جس میں بچھی ہوئی ہے سیاہ مٹی پہ برف ایسے
کہ مانو جیسے سکوں ہو پھیلا ہر ایک جانب
میں دیکھتی ہوں فلک کی جانب تو مجھ کو دکھتا ہے ایک چہرہ جو بادلوں سے بنا ہوا ہے
وہ ایک چہرہ کہ جکسی آنکھوں میں قطرہ بھر بھی نمی نہیں ہے
وہ ایک چہرہ جو اصلیت میں مجھے میسر کہیں نہیں ہے
اگرچہ آنکھیں وہ نم نہیں ہیں
تو شبنمی یہ تمام بوندے کہاں سے آخر برس رہی ہیں
ہر ایک شئے کو بھگو رہی ہیں
چھپی ہوئی ہوں میں جس جگہ پہ وہاں سے تھوڑی سی دور پہ ہی
دوچار پود ے بھی پھول کے ہیں لگی ہیں جن میں دو چار کلیاں
میری نظر ان تمام کرنوں پہ روشنی کی ٹکی ہوئی ہے جو شبنمی ان تمام بوندوں سے مل رہی ہیں
وہ سات رنگوں میں کھل رہی ہیں
ہر ایک شے ہے جو ان کی زد میں وہ اور رنگین ہو چکی ہے
مگر تبھی میں یہ دیکھتی ہوں
صحن میں میرے درخت ہے جو وہ سوکھ جانے کی ضد پہ پھر سے اڑا ہوا ہے
میں دیکھتی ہوں بچھی ہوئی ہے سیاہ مٹی پہ برف کی جو سفید چادر وہ رفتہ رفتہ پگھل رہی ہے
یوں لگ رہا ہے کہ جیسے بن کے وہ ایک طوفاں ڈبو رہی ہے ہر ایک شے کو
میں دیکھتی ہوں وہ ایک چہرہ جو بادلوں سے بنا ہوا ہے میری تباہی کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے
مجھے اچانک یہ سارے منظر کیوں دھندلے دھندلے سے لگ رہے ہیں
کہ مانو جیسے وہ ریت کا کوئی ایک پتلا جو ساتھ پاکر ہواؤں کا اب ذرا ذرا بکھر رہا ہے
مگر اب اس کشمکش میں ہوں
کہ میں جگ رہی ہو یا سو رہی ہوں اگرچہ اب جگ رہی ہوں تو پھر میں کس طرح سے حقیقی دنیا میں اپنے خوابوں کو جی سکو نگی
اگر جو ایسا نہیں ہے ممکن تو میرے رب تو مجھے عطا کر دے نیند ایسی
کہ خواب کو میں بنا لوں اپنی اک ایسی دنیا
جہاں پہ میں جی سکوں وہ بن کر جو اصل میں ہوں
ایک ایسی دنیا جہاں پہ کوئی بھی آ نہ پائے