خلافت راشدہ

Image Source: mazameen.com

خلافت عربی زبان کا ایک لفظ ہے جو مشتق ہے “خَلَفَ” سے اور اس کے لفظی معنی ہیں “پیچھے” ۔ اصطلاح میں خلافت اس حکومتی ڈھانچے کانام ہے جس کے ذریعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی معاشرہ کا نظم و نسق چلایا جاتا تھا ۔ تاریخ اسلامی میں خلافت راشدہ سے مراد وہ نظام ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جا نشینوں نے آپ صلی االلہ علیہ وسلم کے اسوے اور نمونے پر قائم رکھا اور یہی خلافت علی منہاج النبوّہ ہے ۔ خلافت راشدہ کی مدت ۳۰ برس ہے اُسکے بعد ملوکیت و بادشاہت  کا دور شروع ہو جاتاہے جس کی سب سے بڑی دلیل نبیﷺ  کا یہ قول ہے “ الخِلافۃُ  فی اُمَّتی ثلاثونَ سنة ثُمَّ مُلِک بعد ذٰلک “ ( ترمذی)

 اس تصریح کے مطابق حضرت ابو بکر صدیقؓ کی مدت خلافت دو سال ، حضرت عمرؓ کی دس سال ، حضرت عثمانؓ کی ۱۲ سال اور حضرت علیؓ کا چھ سالہ دور خلافت ملاکے ۳۰ سال کی مدت مکمل ہوتی ہے کچھ اہل الرّائے کا کہنا ہے کہ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد سے ۳۰ سالوں میں چھ مہینے کم ہیں جس میں اگر حضرت حسنؑ بن علی کے چھ مہینے شمار کر لئے جائیں تو ۳۰ سال مکمل ہو جاتے ہیں۔

  خلافت راشدہ کی اوّل شرطیکہ “ امرُ ھُم شوریٰ بینھم” مسلمانوں کے باہمی معاملات باہمی مشورے سے طے پانا ۔ حضورﷺ اس دنیا سے ۲۰ جون ۶۳۶ مطابق ۱۲ ربیع الاوّل کو اس دنیا سے پردہ فرما گئے اور اپنے بعد اپنا کوئی جانشین نامزد نہیں کیا ۔ آپؐ کے وصال کے بعد سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ یہ ملت جس کی آپؐ نے ۲۳ برس تک آبیاری فرمائی ، ہر موقع اور پے ہدایت عطا کی، ہر لمحہ تربیت فرمائی اب اس ذمہ کی چادر کون اوڑھیگا، کون ذمہ داری کو سنبھا لے گا۔

  یہ سوال سب سے پہلے اجتماعی طور پے بنو ساعدہ نے اٹھایا ۔ انصار مدینہ خلافت کا حق دار خود کو سمجھتے تھے ان کا ماننا تھا کہ انہوں نے اسلام کے لئے بہت قربانیاں دی تھیں ، اسلام کو پناہ دی تھی ، پورے عالم عرب میں اسلام کو غالب کرنے کی مہم میں نبی پاک بھر پور ساتھ دیاتھا ۔ مہاجرین میں حضرت ابو بکر ان سب باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے فرمانے لگے مہاجرین اولین نے بہت پہلے سے اسلام کے لئے قربانیا دی ہیں ھجرت کی ہے اپنا گھر بار ، بیوی بچے اسلام کے چھوڑے ہیں اور سب سے بڑھ نبی پاک کا یہ قول ہے “ الائمۃ من قریش” امیر قریش میں سے ہونا چاہئے یہ قول ہر قسم کی بحث و مباحثے اور مزاحمت کو ختم کر دیتا ہے پس انصار مدینہ خاموش ہو گئے۔  چنانچہ صدیق اکبر نے خلافت کے لئے بنو ساعدہ کے سامنے حضرت عمرؓ اور عبیدہ ابن الجرّاح کا کے نام پیش کئے لیکن فوراحضرت عمر ؓ کھڑے ہوئے اور حضرت ابو بکر کے فضائل بیان کرنے لگے اور آگے بڑھ ان کے ہاتھ پے بیعت کر لی ۔ اس کے بعد اگلے مسجد نبوی میں صدیق اکبر کے ہاتھ پے بیعت عام ہوئی ۔ اس۔ طرح مسلمانوں کی باہم رائے اور مشورے سے امرُھُم شوریٰ بینھم کے مصداق پے حضرت ابوبکر خلیفہ اوّل منتخب ہوئے، اسی طرح ہر خلیفہ سے پہلے کچھ افراد پے مشتمل کمیٹی تشکیل دی جن میں کبار صحابہ کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد بھی شامل ہوتے باہم رائے اور مشورے سے خلیفہ منتخب ہوتے ۔

اب یہ وہ دور ہے جہاں سے اسلامی تاریخ کا درخشاں باب شروع ہوتا ہے فتوحات اور اسلامی مملکت کی توسیع کا سلسلہ پروان چڑھتا ہے جہاں قرآن پاک کی جمع و تدوین اور سب سے بڑا کام انجام پاتا ہے ۔  ہاں البتہ کچھ وقت ایسا بھی گزرا ہے جس میں سیاہ اور پُر آشوب دور سے بھی گزرنا پڑا ہے ۔ خلافت راشدہ کی تیس سالہ مدت میں خلفا راشدین کو مختلف چیلینجز کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس سے قطعا یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ یہ چیلینجز خلیفہ وقت کی کمزوریوں یا اُنکی خامیوں کی وجہ سے سامنے آئے تھے ۔ یہ تو وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے اپنا تن من دھن شروع سے ہی اسلام اور رسول اللہ کے لئے نچھاور کر رکھا تھا ، اسی لئے مسلمانوں نے یکے بعد دیگرے انہی میں سے اپنے لئے خلیفہ منتخب کئے ۔ ان چیلینجز اور فتنوں کے پیچھے اسباب یہ تھے کہ یہ لوگ جو نئے نئے اسلام میں داخل ہو رہے تھے یہ مختلف ملکوں ، علاقوں ، خطوں سے تھے ۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں مجبوری میں اسلام قبول کیا تھا اور ایسے بھی تھے جنہوں صرف اپنی جان بچانے کے لئے اسلام قبول کیا ۔ اور کچھ نے دکھاوے کے لئے بھی اسلام قبول کیا اور دل سے اسلام دشمنی اور نقصان پہچانے کے لئے مسلمان بنے رہے ۔

 چنانچہ حضرت ابو بکر ؓ کی خلافت کے ابتدا ہی میں فتنہ ارتداد نے سر اٹھا لیا اور کافی لوگ اسلام سے منحرف ہو گئے ، اس فتنے پر ابو بکرؓ نے پُر زور طریقے سے لگام لگائی ۔ اس کے بعد ایک نیا چیلینج سامنے آیا جس میں لوگوں نے زکوٰۃ دینے منع کردیا ، تب خلیفہ راشد نے ان سے جنگ کرکے  انہیں زکوٰۃ دینے پر آمادہ کیا ۔ اس کے بعد خلیفہ دوم عمرؓ کا وہ زمانہ ہے جو اسلام کے تاباں اور درخشاں دور گواہ ہے ۔ یہ زمانہ نہ صرف خوشحالی ، امن اور سکون تھا بلکہ یہ فتوحات اور تو سیع مملکت کا زبردست زمانہ تھا ۔ اس کے علا وہ اس دور میں مسلمانوں کی سہولت کے لئے کئی محکمے ( جیسے ڈاک ، پولیس وغیرہ کے) قائم کئے گئے ۔

اس کے بعد حضرت عثمان کا دور ہے جس کا زیادہ عرصہ  اگر چہ خوشحالی اور فتوحات پر منحصر ہے لیکن آخری دور فتنوں کی نذر ہو گیا ۔ حتی کہ ان فتنوں کے نتیجے میں خلیفہ ثالث حضرتِ عثمانؓ کی شہادت بھی واقع ہو گئی جسکو تاریخ اسلامی میں “الفتنۃ الکبریٰ” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ اور چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کی خلافت کا مکمل دور بھی فتنوں اور جنگ و جدال کا گواہ بن گیا ، جہاں مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف ہی تلوار اٹھانی پڑی اور ہزاروں مسلمان ایک دوسرے کی تلوار سے شہید ہوئے ۔

مجموعی طور پر خلافت راشدہ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری خلافت میں کہیں بھی کسی خلیفہ نے کتاب اللہ کی پیروی کو نہیں چھوڑا اور نہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روگردانی کر کے اپنی مرضی کے کام کئے۔ یہ پورا دور اگرچہ خوشحالی و امن کے ساتھ فتنوں اور لڑائیوں کا گواہ بھی رہا ہے لیکن پھر بھی اس کے نصب العین اور مقاصد میں کہیں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جو اس کے “خلافت راشدہ” ہونے کو ثابت کرتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here