پھول کھلتے ہیں ریگزاروں میں
آسماں میں دھنک ابھرتی ہے
خار کلیوں کا روپ لیتے ہیں
خشک دھرتی گہر اگلتی ہےایسا لگتا ہے جیسے تم آئے
لے کے چادر گلوں کی شانوں پر
بس اسی اک خیال سے جاناں
رنگ کھلتے ہیں میرے گالوں پررنگ ایسے کہ جن کو دیکھوں تو
زندگی شاد لگنے لگتی ہے
رنگ جب یہ نظر نہیں آتے
زیست برباد لگنے لگتی ہےسوچتا ہوں، کہیں یہ رنگت بھی
کوئی دھوکا نہ ہو بہاروں کا
اس برس بھی مرے جگر میں کیا
تیر اترے گا کوئی خاروں کا