کر کر کے قید مجھ کو وہ صیاد رہ گیا
میں تھا اسیرِ رنج سو آزاد رہ گیا
سینے سے ایک تیر تو نکلا ہے جس طرح
اس نے مگر کیا تھا جو ارشاد رہ گیا
میں نے کہا کہ وزن کو جانچو ذرا بہ غور
کہنے لگا کہ جی مرے استاد رہ گیا
کس طور وہ بنائے گا وہ اس کے بدن سی ڈھال
اس کشمکش سے ہار کے بہزاد رہ گیا
اپنی خرد پہ ہوتا ہے مجھ کو ملال یوں
جو بھولنا تھا مجھ کو، وہی یاد رہ گیا
صابر ہو کوئی مجھ سا تو مجھ کو دکھاؤ بھی
پہلو میں میرے تیشۂ فرہاد رہ گیا
صائنؔ دلِ خراب کی باتوں میں آن کے
صحرا میں جا ملی نہ گھر آباد رہ گیا