رات کے اس پہر نہ جانے کیوں ہوائیں بے چین ہیں؟ یہ کبھی میرے کمرے کے دروازے پہ دستک دیتی ہیں، کبھی باہر پڑی کرسیوں کو الٹ پلٹ کر دیتی ہیں اور کسی وقت برآمدے میں لٹکے پردے کو جھنجھوڑتی ہیں- میں کمرے میں تنہا بیٹھا اس شور سے بچنے کی کوشش کر رہا ہوں- یہ بے چینی ہے یا پھر ہواؤں کی اٹھکیلیاں، مگر جو بھی ہے مجھے لمحہ موجود میں سے اڑا کر حال سے بے خبر کرنے پر تلی ہوئی ہیں-
میرے اردگرد بے شمار صفحات بکھرے پڑے ہیں جن پر مختلف زبان میں لکھے ہوئے ان گنت الفاظ میری جانب دیکھ کر جیسے قہقہے لگا رہے ہیں- میں ان قہقہوں اور ہواؤں کے شور سے اپنے کانوں کو بند کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں- یہ لفظ کیا ہیں۔۔۔ ان میں کئی ایسی نظمیں ہیں جنہیں میں کبھی پورا نہیں کر پایا۔۔۔ بے شمار غزلیں ادھوری خواہشوں کی مانند بے یار و مددگار پڑی ہیں۔۔۔ان صفحات پر الفاظ کی صورت لاتعداد نامکمل افسانے دھرے ہیں جن کو میں مکمل نہیں کر سکا- میں غور کرتا ہوں تو ان سب کے بیچ مجھے وہ کیفیات اور لمحات شکست خوردہ فوج کے تتر بتر سپاہیوں کی مانند نظر آتے ہیں، جن کی کبھی میں نے کمان کی تھی، جن کو میں نے محسوس کیا تھا اور جن کے اندر میں نے زندگی دیکھی تھی- اچانک ایک لمحے کو پھر یوں محسوس ہوا جیسے میں ناموجود ہوں-
میں گھبرا کر بے ساختہ سامنے نظر اٹھاتا ہوں تو دیوار پر لگا ایک بوسیدہ آئینہ، کسی جھریوں زدہ چہرے والے بوڑھے کی مانند میری جانب دیکھتا ہے، جس پر کوئی تاثر، احساس، حیرانی، امنگ یا کشمکش موجود ہی نہیں- وہ بس مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے- یہ بوسیدہ آئینہ، کسی بوڑھے کی ان آنکھوں جیسا ہے جو عہد رفتہ کے تمام عکس لیے کسی نئے عکس کو اب قبول کرنے سے گریزاں ہے، لیکن اس آئینے میں بننے والا میرا مبہم سا عکس یہ ثابت کر رہا ہے کہ میں لمحہ موجود میں ہوں؛ لیکن کیا میں باخبر بھی ہوں؟
جنوں خرد پر غالب آ جائے تو کیا ہوتا ہے۔۔۔تحیر عشق آشکار ہوتا ہے یا پھر بے خبری بقا پاتی ہے؟ مگر عشق کی پرتوں کو کھولنے والوں کو بے خبر کبھی نہیں پایا گیا- یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اس وقت حالت جنوں میں یہ سب لکھ رہا ہوں مگر جنوں میں کیفیات کا اظہار ممکن ہے کیا؟ پس میں جنوں کی کیفیت میں تو نہیں ہوں- ہاں تحیر عشق میں مبتلا ہو سکتا ہوں کہ جہاں خرد اپنے تمام گُر کھو بیٹھی ہو جیسے- مگر میں چونکہ موجود ہوں، سو میں تحیر عشق کے دائرے سے بھی باہر ہوں- گر میں، میں ہی ہوں تو پھر عشق کیسا تحیر کیسا؟ ہواؤں کا شور مزید بڑھ چکا ہے-
میں اب بھی موجود اور ناموجود کی کشمکش میں ہوں- حقیقت کیا واقعی اسی کو کہتے ہیں جس کا ادراک ہمارے حواس خمسہ کے ذریعے ہوتا ہے۔۔۔یعنی ظاہراً نظر آنے والی شے ہی حقیقت ہوتی ہے- اگر ایسا ہے تو پھر میں موجود ہوں اور یہ سب اپنی مرضی سے لکھ رہا ہوں- لیکن فرض کریں اگر حواس خمسہ کے ذریعے ہونے والا ادراک حقیقت ہی نہیں تو پھر میں کیا ہوں؟ یعنی وہ بوسیدہ آئینہ جو میرا مبہم سا عکس دکھا رہا ہے۔۔۔ وہ حقیقت نہیں؛ میں وہ نہیں ہوں جو یہ آئینہ مجھے دکھا رہا ہے- پھر تو فرانسس کرک نے درست لکھا تھا کہ ہمارے دیکھنے کے عمل میں ایک ’’نظر نہ آنے والی جگہ‘‘ بھی ہوتی ہے، جسے ’’Blind Spot‘‘ کہا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اس ’’نظر نہ آنے والی جگہ‘‘ کے اندھے سوراخ کو بھردیتا ہے، لہٰذا بصارت کے عمل میں کوئی ناہمواری یا عدم تسلسل نمودار نہیں ہوتا۔ تاہم اس ’’اندھے سوراخ” کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ویدانت نے ’’نظر‘‘ آنے والی حقیقت کو مایا کہا تھا جس کا مطلب تھا عکس- اور پھر تصوف میں ’’نظرآنے والی حقیقت‘‘ کو سراب کہا جاتا ہے جبکہ یونانی فلسفے نے ’’نظرآنے والی حقیقت‘‘ کو ’’اصل حقیقت‘‘ کا سایہ قرار دیا- تو کیا میں عکس ہوں اور اصل کوئی اور ہے؟
میری نظریں کبھی اس بوسیدہ آئینے پر پڑتی ہیں اور کبھی ارگرد بکھرے ان صفحات پر آن ٹکتی ہیں جن پر ادھورے لمحات ثبت ہیں- میں حال سے بے خبر نہیں ہوں نہ ہی جنوں و خرد کی کشمکش میں مبتلا ہوں- ہاں البتہ بے خبری اور باخبری کے بیچ بیٹھا یہ سب لکھ رہا ہوں- میں کیسے بیان کروں کہ بیک وقت بے خبری اور باخبری کی کیفیت آگہی کی صورت دھار کر کیا گل کھلایا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔؟ رات ڈھل رہی ہے، ہوائیں ساکت ہو چکی ہیں اور اب خاموشی نے ہر شے کو اپنے حصار میں لے کر سکون کا بگل بجا دیا ہے-