جہالت سے علم تک کا سفر

Image Source: Whatfix

ہم میں سے کئی لوگوں کا یہ مشاہدہ رہا ہوگا  کہ کیسے آج کل لفظی تکرار اور بحث و مباحثہ کا رواج عام ہوا جاتا ہے۔ لگ بھگ ہر کوئی اس لاحاصل اور نقصان دہ عمل میں ملوث نظر آتا ہے۔ لوگ ‘علم’ اور اس سے متعلق موضوعات پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور آخر کار تکرار و تصادم میں پڑ جاتے ہیں جو بہت سے معاملات میں کسی کو بھی کسی منزل تک نہیں لے جاتا۔ علم کے تقریباً ہر شعبے میں یہ ایک فیشن اور رواج بن چکا ہے۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسی علوم کے میدان میں اس کا اثر مذہبی علوم کی نسبت کم ہے۔ اس افراط و تفریط کی اصل وجہ دو قسم کے لوگ اور ان کا رویہ ہے، پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس بہت کم معلومات ہوتی ہے اور وہ اپنی معمولی معلومات کی بنیاد پر ہی بحث و مباحثہ میں الجھ جاتے ہیں۔ بہر حال یہ لوگ تعداد میں بہت کم ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کے پاس سرے سے کوئی معلومات ہوتی ہی نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو غلط معلومات ہوتی ہے، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ معلومات کے بغیر بھی وہ نہ ختم ہونے والی بحثوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ دوسری قسم کے لوگ تعداد میں کافی زیادہ ہیں۔ یہ بنیادی طور پر اس لیے ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت علم کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہے۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر لوگ اکثر وہم، شک، گمان اور حتیٰ کہ جہالت کو بھی علم سمجھ لیتے ہیں اور اسی شکوک و شبہات کے ساتھ بحث و مباحثہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جبکہ علم کی حقیقت بالکل مختلف ہے، علم دراصل معلومات کے سفر کا آخری مقام ہے، اور اس کی منزل ہے۔ یہ سفر جہالت کے مقام سے شروع ہوتا ہے، دوسرے مختلف مقامات/مراحل سے گزرتے ہوئے اپنی منزل یعنی کہ ‘علم’ پر پورا ہوتا ہے۔

 ہم کسی شے کے متعلق حقیقی معنوں میں ‘عالم’ صرف اس وقت کہلا سکتے ہیں جب ہم اس شے کے بارے میں وہ جانتے ہوں جو ہمیں اسکے متعلق یقینِ کامل کے مقام پر لے جائے۔ جب ہم کسی شے کے متعلق، اس کی سو فیصد حقیقت کو جان لیتے ہیں، تب ہی ہم اس جاننے کو’ علم’ کہہ سکتے ہیں۔ یقین کے اس مقام سے پہلے ہمیں اور بھی مختلف مقامات سے گزرنا ہوتا ہے جو ایک مکمّل سفر ہے اور یہ سفر جہالت (0%) کے مقام سے شروع ہوتا ہے اور بالآخر اس کا اختتام علم (100%) کی منزل پر ہوتا ہے۔ اس سفرِ علم کے پانچ مقامات/مراحل ہیں:-:

پہلا مقام جہالت یا ‘جہل’  ہے، جو کہ اس سفر کا آغاز ہے۔ اس مقام پر ہم مکمل طور پر جاہل ہوتے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ صرف ایک “میں کچھ نہیں جانتا” والی صورتحال یا مکمل اندھیرے کی حالت ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی خاص چیز یا تصور کے بارے میں کوئی علم نہ ہونا۔ جہالت دو طرح کی ہوتی ہے:

سادہ جہالت ‘جہل البسيط’ یہ مکمل لاعلمی کی حالت ہے، بالکل خالی، بالکل بھی معلومات نہ ہونا۔ یہ مکمل نفی اور علم کی عدم موجودگی کی طرح ہے جس کی وجہ سے کوئی ادراک نہیں بن سکتا۔

▪️پیچیدہ جہالت (جہل المرکب): یہ غلط معلومات کا ہونا ہے، غلط تصور اور غلط ادراک کا ہونا۔ یہ کچھ معلومات رکھنے جیسا ہے جس کی وجہ سے ایک تأثر یا نظریہ قائم ہو سکتا ہے لیکن وہ حقیقت کے بالکل خلاف ہو۔ اس حالت میں مکمل تاریکی یا معلومات کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ کچھ تو معلوم ضرور ہوتا ہے لیکن وہ معلومات یا وہ تصور بالکل غلط ہوتا ہے۔ اس حالت میں، ہم %0 پر  ہی ہیں اور یہ حصول علم کی طرف سفر کا پہلا مقام ہے یہاں سے علم کا سفر شروع ہوتا ہے۔

دوسرا مقام غیر یقینییت ‘وہم’  کا ہے، جہاں ہم جہالت سے نکل کر محض ایک قیاس یا تخیل کی حالت میں آ جاتے ہیں۔ جہاں کوئی خیال ذہن میں آ رہا ہوتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس ایک مبہم خیال ہے کہ صورتحال ایسی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا، ہم اس حالت سے نکل آئے ہیں جہاں ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں تھا، نہ اس طرح اور نہ ہی اس طرح۔ وہ جہالت تھی یا مکمل طور پر لاعلمی۔ اب ہم تھوڑے سے جہالت سے باہر آ گئے ہیں اور ہماری عقل نے کام کرنا شروع کر دیا ہے، یہ ’وہم‘ ہے، ایک غیر واضح اور غیر معینہ سوچ۔ یہاں تک کہ اگر ہم 10% لاعلمی سے آئے ہیں، یا 20%، یا 30%، یا 40% سے 45%، یہ سب ‘وہم’ (غیر یقینی صورتحال) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مبہم سوچ 49% کی سطح تک بڑھتی اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس حالت میں ہم 1% سے 49% کے درمیان ہوتے ہیں، اتنا ہی جانتے ہیں اور اس جاننے کو علم نہیں کہا جا سکتا۔

 تیسرا مرحلہ یا مقام تذبذب یعنی کہ ‘شک’  کا ہے، اس حالت میں ہم آدھے علم کو جانتے ہیں اور باقی آدھے کو نہیں جانتے۔ یہ 50-50 کی صورتحال ہوتی ہے، ہماری 50% عقل کہتی ہے کہ ایسا ہے اور باقی 50% کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بے یقینی کی حالت (وہم) سے نکلنے کے بعد جہاں علم کی سطح 1% سے 49% کے درمیان تھی، اب یہاں یہ عین 50% تک پہنچ جاتی ہے، نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ اسے  شک کی حالت کہتے ہیں۔ شک کا مطلب ہی درمیان میں ہونا ہے یعنی کہ آدھا جہالت اور آدھا علم کی طرف ہونا۔ یہاں ہم 50% پر ہیں اور اسے بھی ابھی علم نہیں کہا جا سکتا۔

 چوتھا مقام گمان کا ہے، اس جگہ ہم شک اور یقین کے درمیان میں ہوتے ہیں، یعنی کہ گمان کی سی حالت، اور اسے “ظن” کہتے ہیں۔ جب ہم شک کی حالت سے نکل کر آگے بڑھ جائیں اور یقین کے قریب ہوتے چلے جائیں، ہمارے صحیح معلومات میں مزید اضافہ ہو رہا ہو اور ان معلومات کے ذریعے ہم کسی ایک نقطہ نظر کی طرف زیادہ جھکاؤ یا غلبہ محسوس کر رہے ہوں. مثلاً جب ہم ایسے جملوں کا استعمال کرتے ہیں کہ “میرا گمان ہے” یا “امکان ہے”۔ ہم اس حالت میں 90% تک یا زیادہ سے زیادہ 99% تک جا سکتے ہیں اور بقیہ 1% کا رہ جانا اسے علم نہیں ہونے دیتا جب تک کہ یہ 1% بھی نہ جان لیا جائے۔ یہاں ہم 50% سے لے کر 99% کے درمیان میں ہی ہو سکتے ہیں، جب ہم ‘جہل’ (پہلے مقام) پر تھے تو یہ علم نہیں تھا۔ جب ہم ‘وہم’ (دوسرے مقام ) پر پہنچے تو تب بھی یہ علم نہیں تھا اور اسی طرح جب ہم ‘شک’ (تیسرے مقام ) یا ‘ظن’ (چوتھے مقام) پر تھے تو تب بھی اسے علم نہیں کہا جا سکتا تھا کیونکہ اس میں ابھی بھی ابہام موجود تھا اور یہ ابھی تک مکمّل یقین کے مقام پر نہیں پہنچ سکا لہٰذا یہ علم نہ ہوا۔

اس سفر کا پانچواں اور آخری مقام “علم” ہے۔ “شک” کے مقام سے نکل کر “ظن” میں داخل ہونے کے بعد ہم نے اپنی فکر کو مضبوط کیا اور مزید معلومات حاصل کی، زیادہ جدوجہد کی، اور اب ہم ظن سے نکل کر یقین کے مقام پر آ چکیں ہیں، یہ وہ مقام ہے جہاں ہم معلومات کے تعلق سے 100% کی سطح پر پہنچ جاتے ہیں اور یہی وہ یقینِ کامل کا مقام ہے جسے علم کہتے ہیں۔ یہاں ہماری معلومات میں جہل، وہم، شک اور ظن کا کوئی دخل نہیں رہتا. پس علم وہ درجہ ہے جہاں عقل پوری طرح مطمئن ہو جاتی ہے اور یہ تصدیق کرتی ہے کہ یہ معلومات یا یہ معاملہ یا پھر یہ مسئلہ سو فیصد ایسا ہی ہے۔

 *خلاصہ*:

مختصر یہ کہ علم کا سفر اپنے پہلے مقام یعنی کہ “جہل” سے شروع ہوتا ہے جہاں ہم مکمّل طور پر جاہل ہوتے ہیں۔ جہل سے آگے نکل کر مزید معلومات کے اضافے کے بعد ہم اگلے مقام یعنی کہ “وہم” تک پہنچ جاتے ہیں، پھر اسکے بعد ہم آگے بڑھتے ہیں اور ہمارے معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ ہم “جہل” اور “علم” کے مکمّل درمیان میں پہنچ جاتے ہیں جسے “شک” کا مقام کہتے ہیں۔ اب اس کے بعد ہم مزید کوشش کرتے ہیں، ہم مزید معلومات جمع کرتے ہیں اور مزید تحقیق کرتے ہیں اور اس طرح ہم اپنے اگلے اسٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں جسے “ظن” کہا جاتا ہے۔ یہ قیاس کی سی حالت ہے جہاں ہم علم کے قریب اور جہالت سے زیادہ دور ہوتے ہیں۔ آخر کار، مزید معلومات حاصل کرنے اور مزید مطالعہ اور تحقیق کرنے کے بعد بالآخر ہم یقین کی سطح پر اور اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں جسے “علم” کہا جاتا ہے۔ پس علم وہ مقام ہے جہاں کسی قسم کا جہل، وہم، شک یا ظن کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ سفرِ علم کے مذکورہ تمام مراحل پر اسلام کے ابتدائی دور کے علماء اور فلسفیوں نے تفصیل سے کلام کیا ہے، جیسے کہ الجرجانی نے اپنی تصنیف کتاب التعریفات میں، الآمیدی نے کتاب الاحکام فی اصول الاحکام میں، الرازی نے اپنی تصنیف المحصول فی اصول الفقہ میں اور اسی طرح الجوینی نے اور تقی الدین السبکی نے بھی اس پر کلام کیا ہے. یہ علم الکلام (Islamic Scholastic Theology) کا ایک مضمون ہے جس کے لفظی معنی ہیں “سائنس آف ڈسکورس” (Science of Discourse)۔ فلسفہ میں بھی اس موضوع پر بہت کلام اور بحث کی گئی ہے؛ فلسفہ میں “علم” کے مطالعات کو “Epistemology” کہا جاتا ہے۔ فلسفی افلاطون کے نزدیک علم دراصل یقین کا وہ مقام ہے جو جائز بھی ہو اور ثابت شدہ بھی ہو (Justified True Belief). افلاطون کی اس تعریف کے مطابق معلومات کو “علم” ماننے کے لئے تین شرائط ضروری ہیں: پہلی اسکا جائز ہونا، دوسری اسکا صحیح ہونا اور تیسری اسکا یقینی ہونا۔ کچھ فلاسفہ کا دعویٰ ہے کہ یہ شرائط کافی نہیں اس کے ساتھ بعض اور شرائط کا ہونا بھی لازمی ہے. کچھ دوسرے تجزیاتی فلسفیوں نے افلاطون کی اس تعریف کا مکمّل انکار بھی کیا ہے۔ تاہم فلسفہ کے مطابق بھی علم کے حصول میں عقل، ادراک، ابلاغ اور استدلال شامل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ایک جائز اور حقیقی تصور وجود میں آتا ہے. بہر حال علم کے موضع پر جتنا بھی کلام کر لیا جائے وہ کم ہے، ہمیں بس اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ حصولِ علم ایک مکمّل سفر اور جدوجہد کا نام ہے، اور جس نے بھی یہ سفر طے نہیں کیا یا پھر جسے اسکی حقیقت کی کوئی خبر نہیں ہے تو اسے اصولی طور پر “علم” یا اس سے متعلقہ موضوعات پر کلام کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

 *مسئلہ*: اب موجودہ دور میں جب ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو ہماری حالت بالکل برعکس ہے۔ جس شخص کے ذہن میں جو کچھ ہے وہ اسی کو مکمّل علمِ سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ خود سے اختلاف کرنے والے ہر دوسرے شخص کو جاہل قرار دے دیتا ہے۔ یہ سب علم کی حقیقت سے نا آشنائی کے سبب ہے۔ ہمارے اکثر علماء اور طالبانِ علم میں یہ رجحان پیدا ہو گیا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی وہ  جانتے یا مانتے ہیں بس وہی حق ہے، وہی 100% درست ہے۔ یا مثلاً اگر میں یہ تصور کرنے لگ جاؤں کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں بس وہی علم کل ہے جب کہ میری اصلیت یہ ہو کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ کیا میں نے علم حاصل کرنے کی تمام شرائط اور تقاضے بھی پورے کئے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میرا ‘جاننا’ ابھی صرف وہم کے مقام پر بھٹک رہا ہو۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ مجھے ’’کسی چیز کی حقیقت کا علم ہونا‘‘ ابھی تک شک کے مقام پر ہو یا پھر ظن کے مقام پر۔ ایسا بھی تو ممکن ہے کہ میرے معلومات میں غلطی کا امکان ہو، میری سوچ اور سمجھ میں غلط فہمیاں موجود ہوں؟ لیکن ہم کبھی بھی “علم” کے لئے اس طرح نہیں سوچتے، ہم اپنی معلومات کا تجزیہ نہیں کرتے کیونکہ ہم اپنے تئیں بھی اور علم کے تئیں بھی سچے نہیں ہیں۔ ہمیں جو کچھ معلوم ہوتا ہے، چاہے وہ تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ ہو یا ہم نے اسے صرف ایک کتاب میں ہی پڑھ رکھا ہو، یا پھر کسی ایک چھوٹے سے رسالے کے جند صفحات ہی دیکھے ہوں، بس، اس کے بعد بڑے جوش و خروش کے ساتھ، بڑے غرور اور غصے کے ساتھ، غضبناک انداز میں، ہم بحث و مباحثہ شروع کر دیتے ہیں، اپنے آپ کو اور دوسروں کو بحث و تکرار میں مبتلا کرتے ہیں اور جو اختلاف کرے اس کے لئے سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، سیدھے فیصلے صادر کر دیتے ہیں اور بعض اوقات تو اختلاف کرنے والے کو کبھی جاہل، کبھی گمراہ اور حد یہ کہ کبھی کافر قرار دے دیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ہے یہ سمجھتی ہے کہ حقیقی علم صرف وہی ہے جو ان کے پاس ہے اور باقی سب لوگ جاہل ہیں۔ علم کے متعلق ہمارا یہ رویہ بہت نقصان دہ ہے، اس سے اختلافات کم نہیں ہوتے بلکہ مزید بڑھتے ہیں، لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے حسد، بغض اور نفرت میں اضافہ ہوتا ہے اور بالآخر معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے۔

انسان فطرتاً ضدی ہوتا ہے اور یہی ضد انسان کو تکرار اور بحث و مباحثہ کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ ہمارے پست نفس کی خصوصیات میں سے ہے جس پر قابو پانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اور بے شک ہم نے قرآن میں انسانوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بار بار بیان کی ہیں، لیکن انسان جھگڑے میں ہر چیز سے بہت آگے ہے۔‘‘ (القرآن 18:54)

’’کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد گمراہ نہیں ہوتی مگر وہ جھگڑے میں پڑ جاتی ہے۔‘‘ (ترمذی:3253)

اس لیے ہمیں ذاتی طور پر شائستہ اور پرسکون رہتے ہوئے “علم” یا علم سے متعلق کسی بھی موضوع پر تب تک بات یا تبصرہ نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ ہمارے پاس اس موضوع کے متعلق مکمّل اور صحیح معلومات موجود نہ ہوں اور جب تک ہمیں اس موضوع پر اچھی گرفت نہ ہو۔ ایسا رویہ اختیار کرنے سے یقیناً ہمیں علم کی صحیح سمجھ بھی حاصل ہوگی اور ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here