کل دکھی تھی وہ مجھکو
غازیوں کے مجمع میں
باغیوں کے حلقے میں
حق کے پیروکاروں میں
انقلابی نعروں میں
لشکرِ شجاعت میں
کاروانِ ہمت میں
اسکی جس کلائی میں
میرے نام کا کنگن
کروٹیں بدلتا تھا
آج اس کلائی پر
اک سفید پٹی تھی
جس پہ خون کے چھینٹے
غالباً بتاتے تھے
گویا اس نے کل شب ہی
چوڑیوں کو توڑا ہو
اسکی چوڑی پیشانی
جس پہ زخم کا گہرا
اک نشان ابھرا تھا
ظلم اور ستم کی جو
داستاں سناتا تھا
اسکی سرمئی آنکھیں
بارہا جنہیں میں نے
جھیل سے ملایا تھا
ان میں خوں ابلتا تھا
غیظ اور غضب میں وہ
انتقام کے شعلے
برہمی کے انگارے
آتشی دہکتے تھے
اسکے پنکھڑی سے لب
اژدہے کی صورت میں
ظلم کے سپولوں کو
غرق کرنے والے تھے
اسکی وہ سیہ زلفیں
ظلم کے مکانوں میں
رات لانے والی تھیں
وہ نشانِ حق تھامے
کاروانِ حق لےکر
جو قدم بڑھاتی تھی
اسکے نقشِ پا یارو
ریت پر سنہری سی
کہکشاں بناتے تھے
میں ذرا رکا ،ٹھہرا
دو قدم چلا اور پھر
اسکے نقشِ پا چومے
چوم کر چلا آیا