جان اک ضربتِ شمشیرِ دو دم اور سہی
تنِ صد چاک پہ دنیا کے ستم اور سہیطاقتِ جنبشِ یک گام نہیں ہے، لیکن
تیرے کوچے کی طرف ایک قدم اور سہیہیں مرے دل کو بہت درد میسر پھر بھی
آپ کی یاد کا اک دستِ کرم اور سہیسانس باقی ہے، سو چلتا ہی چلا جاؤں گا
جوئے غم اور سہی، زورِ ستم اور سہیپھر ہوئی جاتی ہے پیدا ہوسِ سجدہءِ شوق
دل کے مندر میں کوئی تازہ صنم اور سہیکون نقاد نہ ٹھہرا مرے آگے کاظم
مدعا یوں ہے، کہ اک شیخِ حرم اور سہی